نگاہ بلند ۔۔۔ جاں پرُسوز       

ہمارے ہاں بعض اوقات تحریک پاکستان جیسی جمہوری جدوجہد، خصوصاً اس کے آخری دور میں الگ وطن کے مطالبے اور چند سیاسی فیصلوں پر غیر محققانہ تحریریں سامنے آتی رہتی ہیں جو عام پڑھے لکھے افراد اور طالب علموں کو اس تاریخی دور اور تاریخی شخصیات کے بارے میں اُلجھن میں ڈال دیتی ہیں۔

یہی نہیں، ہماری تاریخ کی سب سے قدآور اور غیر متنازع شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور اُن کے طرز سیاست کو بھی بعض اوقات تحقیق اور معروضی طرز فکر کے بغیر دیکھا جاتا ہے۔ چوں کہ ہم علمی و استدلالی معاملات میں بھی ہیجان اور انکشاف کی سماجی عادت یا طرز گفتگو کے عادی ہیں، اس لیے رو میں اکثر اپنی تاریخ کی غیر متنازع شخصیات کو بھی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ تحریک پاکستان اور اس سے وابستہ شخصیات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

تحقیقی رویہ ایک جاندار روایت کو آگے بڑھاتا ہے اور تاریخ سے وابستہ موضوعات میں نئی جہتوں کو تلاش کرکے سامنے لاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ رحجان عام نہیں ہوسکا اور محض سطحی طرز فکر ہی بہت سے معاملات پر حاوی رہا۔ مثال کے طور پر ہم اکثر پڑھتے اور سنتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں جب تقسیم کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ کی قیادت کی طرف سے اس موقع پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا، جس کے باعث تقسیم ہندوستان میں فیصلہ کن حیثیت کی مالک برطانوی انتظامیہ کے ہاتھوں نئی مملکت پاکستان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ بات عیاں ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح ہندو قوم پرست سیاست اور انگریز موقع پرستی سے بخوبی واقف تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ اس موقع پر نہ صرف کانگریسی قیادت مفاد پرستی کا مظاہرہ کرے گی بلکہ انگریز حکمران بھی جانبدارانہ رویہ رکھیں گے۔ قائد اعظم نے پشاور میں2 نوامبر 1945 میں مسلم لیگ کے اجلاس کے موقع پر واشگاف الفاظ میں کہہ دیا “ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔ ہمیں نہ انگریز پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنئے پر۔ ہم دونوں کے خلاف جنگ لڑیں گے خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نہ ہوجائیں۔”

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اس دوشاخہ بد نیتی کے تمام پہلوؤں سے بخوبی آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ نہ ہندو قوم پرست سیاست دان پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں گے اور نہ ہی انگریز حکمران پاکستان کی تحریک کو اچھی نظر سے دیکھیں گے۔

پیچیدہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب کانگریس اور برطانوی اقتدار کی ملی بھگت سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دونوں ممالک کا گورنر جنرل بنائے جانے کا منصوبہ سامنے آیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی اور انہیں ایک مشترکہ گورنر جنرل کا اصول تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ وائسرائے نے جہاں تقسیم کےدوران مشترکہ اثاثوں کی منصفانہ تقسیم کا لالچ دینے کی کوشش کی وہاں قائداعظم کو نئی مملکت پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بھی دھمکی آمیز انداز میں خبردار کرنے کی کو شش کی۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا مزید استدلال یہ تھا کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہوگا اور اسے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سہارے کی ضرورت ہو گی۔ اس نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان ایک مشترکہ گورنر جنرل منظور نہیں کرتا تو اس بات کا امکان ہے کہ اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ قائداعظم نے اس موقع پر نہایت مدبرانہ اور واضح جواب دیا کہ انہیں اقتدار کی کوئی پروا نہیں حتیٰ کہ اس موقع پر نواب آف بھوپال نے بھی انہیں مشترکہ گورنر جنرل کا اصول تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ بھی کہا کہ اگر شمال مغربی سرحد کے قبائل علیحدہ ہو جائیں تو جناح کے لیے ان پر قابو پانا مشکل ہوگا، اس کے علاوہ پاکستان، ہندوستان کے رحم و کرم پر ہوگا، ہاں اگر میں(ماؤنٹ بیٹن) وہاں ہوا تو ایسی صورت حال پیش نہیں آئے گی۔ ماؤنٹ بیٹن نے آخر میں کہا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ گورنر جنرل کی حیثیت سے اِن(قائد اعظم) کے تقرر کو منظور نہیں کریں گے۔

قائداعظم محمد علی جناح اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ ایک ایسے شخص کو دونوں ممالک کے گورنر جنرل کی حیثیت دے کر پاکستان کی قسمت کو داؤ پر لگادیں جو کانگریس کے ہاتھوں بک چکا ہو اور پہلے ہی کئی لحاظ سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا چکا ہو۔

قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح انہوں نے ماؤنٹ بیٹن اور کانگریس کی تراشیدہ اس چال کو ناکام بنادیا۔ قائداعظم بخوبی جانتے تھے کہ اگر ماؤنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر جنرل مقرر کیا جاتا تو وہ اپنا کام کہاں سے شروع کرتا۔ ظاہر ہے کہ یہ جگہ دلی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس صورت میں بجا طور پر یہ سوچا جاسکتا تھا کہ وہ ہندوؤں کے زیر اثر کام کرے گا۔ وہ یقینی طور پر ایک بڑے ملک کے رہنماؤں کے مشوروں پر عمل کرے گا۔ کیا وہ دونوں دارالحکومتوں کے درمیان جھولتا رہے گا اور کراچی میں ایک دفتر قائم کرے گا یا دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والا پیغام رسانی کا ادارہ قائم کیا جائے گا؟ بہرحال ماؤنٹ بیٹن یہ سمجھتا تھا کہ قائد اعظم وزیراعظم کی حیثیت سے اس کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر جنرل کے طور پر بھی کام کرسکتے ہیں لیکن قائد اعظم محسوس کرتے تھے کہ عوام کو جب یہ معلوم ہوگا کہ ان پر دلی سے حکومت کی جارہی ہے تو ان پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ بات ان کے لیے کتنی حیران کن اور ناپسندیدہ ہوگی کہ اس کی قسمتوں کا اختیار قائداعظم کی بجائے ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھ میں ہوگا اس طرح قوم اپنے لیڈر پر سے اعتماد کھو دے گی۔ اس فیصلے سے ماؤنٹ بیٹن کو گہرا صدمہ پہنچا اور اس کی انا کو ایک ایسا زخم لگا جس کا ردعمل پاکستان کے لیے نقصان کا باعث بھی ثابت ہوا۔ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم سے ہونے والی گفتگو اپنی حکومت کو پہنچاتے ہوئے یہ معنی خیز تبصرہ کیا کہ اس فیصلے اس کے سیاسی منصوبوں اور فوجی تقاضوں کو خاک میں ملادیا ہے۔

اپنی نامزدگی کے دوسرے روز13 جولائی 1947 کو قائد اعظم نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا “یہ بات بالکل غلط ہے کہ مسلم لیگ سب سے پہلے اس پر رضامند ہوگئی تھی کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کا ایک ہی گورنر جنرل مقرر کیا جائے اور اس کے بعد وہ اپنے قول سے منحرف ہوگئی۔ پاکستان اور ہندوستان کے گورنر جنرلوں کا انتخاب مسلم لیگ اور کانگریس نے کیا ہے دوسرے لفظوں میں ان کا انتخاب عوام نے کیا ہے۔ میں اس بات کو واضح اور صاف کردینا چاہتا ہوں کہ ان دونوں آبادیوں کے گورنر جنرلوں کا انتخاب درحقیقت بادشاہ نہیں بلکہ ملک کی عوام نے کیا ہے اور اسی بنیاد میں نے اس عظیم عہدے کو قبول کیا ہے۔

بنیادی طور پر قائد اعظم ایک نئی مملکت میں سب سے کلیدی عہدے پر تعیناتی کو بلواسطہ طور پر عوام کی بالواسطہ شمولیت کا نتیجہ قرار دے رہے تھے کیوں کہ مسلم لیگ عوام کی براہ راست نمایندہ جماعت تھی۔ یہاں پر قائد اعظم نے نہ صرف نئی مملکت کے مفادات کو مقدم رکھا بلکہ جمہوری طرز فکر کو بھی جلا بخشی کہ پاکستان میں تقرریاں عوام کی منشا کے مطابق ہوں گی نہ کہ کسی بادشاہ یا آمر کے حکم یا مرضی کے تحت۔


 مضمون نگار نامور صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز