بدلتی سچائیاں

مختلف معاملات پر ایک نکتہ نظر رکھنا اور ایک  رائے قائم کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اسی طرح اختلاف رائے بھی انسانی معاشرے کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ دنیا کے تمام انسان کسی بات پر متفق ہو جائیں۔ اختلاف رائے نہ صرف ایک فطری عمل ہے بلکہ بہت ضروری بھی ہے کیونکہ اس کی بدولت نئے نظریات سامنے آتے ہیں اور معاشرے  ترقی کرتے ہیں۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کے جنگل میں بکھرے مختلف آراء کے ان رنگارنگ پودوں میں سے کسے سچائی کے پھلدار درخت سمجھا جائے اور کسے جھوٹ کی جڑی بوٹیاں قرار دیا جائے۔ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا کیونکہ کسی ایک رائے کو سچائی قرار دینے کا معروضی پیمانہ کسی کے پاس نہیں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سچائی تلاش کرنے کے پردے میں دراصل اپنے اپنے حصے کی سچائیاں تخلیق  کر رہے ہیں۔ ہم جو بھی نکتہ نظر پیش کرتے ہیں اس کے پیچھے والدین سے ملے نظریات،معاشرے میں بکھری غالب آرا، نصاب تعلیم اور ریاستی بیانیہ کارفرما ہوتے ہیں۔  اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حق کی تلاش میں دراصل ہم سچائی تخلیق کر رہے ہیں تو اعلیٰ و ارفع سچائی وہی ہو گی جو انسانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی زندگی میں بہتری لائے۔ سماجی سطح پر بھی یہی ہونا چاہیئے اور ریاستی سطح پر بھی دانشمندی کا راستہ یہی ہے۔

ہمارا اجتماعی وجود بھی ایسی سچائیاں تخلیق کرنے پر انحصار کرتا ہے جنہیں سماج دل سے قبول کر لیتا ہے۔ خود معاشرہ بھی اسی وقت جنم لے سکتا ہے جب افراد کے تخیل کی نگری میں بے شمار ایسے مجسمے بکھرے ہوں جنہیں سب لوگ حقیقت سمجھتے ہوں۔ سماجی ادارے ہوں یا اخلاقی اقدار یا پھر نظریاتی بنیادیں ، یہ سب اس وقت وجود میں آتے ہیں جب لوگوں کی غالب اکثریت ان کے وجود پر متفق ہو جائے۔

کسی بھی ملک کی معیشت اس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب اس کے باشندے کاغذ کے ایک ٹکڑے کو  کرنسی تسلیم کر لیتے ہیں۔ ایک عمارت میں بیٹھے چند سو افراد پورے معاشرے کی تقدیر کے فیصلے اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ لوگ متفقہ طور پر اس عمارت کو پارلیمنٹ ہاؤس اور اس میں بیٹھے افراد کو اپنا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر اداروں کی ہے۔ ایک وہ دور بھی تھا جب انسانوں کا تخیل اپنے جیسے کسی شخص کو بادشاہ قرار دے کر اسے سجدہ تعظیمی جائز سمجھتا تھا اور اس کے بارے میں کوئی غیرمناسب بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آج وہی انسان اپنےحکمرانوں سے جواب طلب کرتے ہیں اور اسے برابھلا بھی کہہ دیتے ہیں۔ بادشاہت دور قدیم کی ایک سچائی تھی اور جمہوریت آج کی ایک سچائی ہے۔

جدید دور میں قومیت کا جذبہ بھی تخیل میں جنم لیتا ہے، ہم ایک مخصوص جغرافیے کو اپنے تصور میں ایک نام دے کر اسے ایک ملک قرار دے دیتے ہیں اور پھر اس کی محبت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ 1947 میں ہمارے وطن عزیز نے بھی اسی طرح جنم لیا تھا ورنہ اس علاقے میں نہ ہی باہر سے کوئی مخلوق در آئی تھی اور نہ ہی کوئی نیا علاقہ وجود میں آیا تھا۔ ناانصافی پر مبنی ایک نیم مرگ سچائی نے آخری سانس لیا تھا اور اس سے ایک نئی سچائی نے جنم لیا تھا جس کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کا تحفظ تھا۔

یہی صورتحال مقبوضہ کشمیر کی ہے جہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود کو ہندوستان کا حصہ نہیں سمجھتی۔ اسے بندوق کے زور پر بھارت نے اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے لیکن اس کے خلاف پچھلی کئی نسلوں سے احتجاج ، مظاہرے اور بغاوت جاری ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کشمیریوں کا تخیل خود کا بھارت کا حصہ تسلیم کرنے پر تیار ہو جائے گا، اس کے بعد نہ ہی وہاں فوج تعینات کرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی احتجاج اور لڑائی جھگڑے ہوں گے۔ اس کے برعکس پاکستان کی اور کشمیری قیادت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کشمیریوں کے تصور سے اپنے وطن کا ہیولا کبھی ختم نہ ہو اور ایک وقت آئے جب تھک ہار کر ہندوستان کے عوام اور حکومت اپنے تخیل میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ تسلیم کر لیں۔

دور جدید میں جب کسی ملک کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی جاتی ہے تو اس میں ان سچائیوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں جن پر قوم میں اتفاق رائے موجود ہوتا ہے۔ اگر روپے کی قدر مشکوک ہو جائے یا بینکوں پر اعتماد ختم ہو جائے یا پھر ریاست کے وجود پر سوال اٹھنے لگیں تو ممالک اور معاشرے بکھر جاتے ہیں۔ جدید تاریخ میں سویت یونین کا ٹوٹ جانا اسی بات کا عملی ثبوت ہے۔

اس تمام تر پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں چاہیئے کہ ہم جو بھی لکھیں، بولیں یا سوچیں اور جو بھی عمل کریں، یہ پہلو لازمی دیکھا کریں کہ کہیں اس سے معاشرے میں انتشار تو نہیں پیدا ہو گا اور ریاست کمزور تو نہیں ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجزیہ بھی کرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں جانے انجانے آپ کسی دشمن ملک کے ہاتھوں تو نہیں کھیل رہے اور اس کی ففتھ جنریشن وار کا حصہ تو نہیں بن گئے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ابلاغ کے یہ جدید ذرائع معاشرے میں پھیلی سچائیوں کو شبہات کی گرد میں گم بھی کر سکتے ہیں اور ان سچائیوں کو ذہنوں میں مستحکم کر کے قومیت کے جذبے کو فروغ بھی دے سکتے ہیں۔ سچائی کی تلاش کا سفر سچائی کی تخلیق پر ختم۔


مضمون نگار آزمودہ کار  صحافی ہیں  اور ”ہم نیوز”  کا حصہ ہیں

ٹاپ اسٹوریز