آزادی ذمہ داری کے ساتھ

شخصی آزادی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے امریکی ادارے ’فریڈم ہاؤس‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف 13 فیصد لوگوں کو آزاد میڈیا میسر ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ ان چند خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں پر میڈیا آزاد ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کی آزادی میں کون سے عوامل کردار ادا کر تے ہیں۔ برطانیہ جیسی مستحکم جمہوریت اور پاکستان کا موازنہ کرنا تو شاید درست نہ ہو لیکن برطانوی میڈیا کا جائزہ لے کر ہم کچھ اہم نکتوں کو اجا گر کر سکتے ہیں جن کی مدد سے شاید پاکستانی میڈیا کو ’آزادی‘ حاصل کرنے میں مدد مل سکے کیونکہ اکثر سننے میں ملتا ہے کہ میڈیا آزاد نہیں ہے۔

تو سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ؛

  • آزاد میڈیا سے کیا مراد ہے؟
  • کیا آزاد میڈیا کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو میڈیا پر رسائی حا صل ہو؟
  • جو بھی اطلاعات موصول ہوں ان کو نشر کر دیا جائے؟
  • عدالت میں زیر سماعت مقدمات کے ساتھ میڈیا ٹرائل بھی کیا جائے؟
  • سوالوں کے ساتھ صحافیوں کو طعنہ زنی کا بھی حق حاصل ہو؟
  • کسی کی علالت یا تندرستی کا سرٹیفکٹ بھی صحا فی دیں؟ (کلثوم نواز کا کیس ہمارے سامنے ہے)
  • اگر کوئی شخص حملے میں زخمی ہو تو یہ فیصلہ بھی صحافی کریں کہ گولی کہاں لگی ہے (احسن اقبال صاحب کو چند روز قبل پریس کانفرنس میں اپنا زخم دکھا کر ثابت کرنا پڑا کہ انہیں گولی کہاں لگی تھی۔)

جن ممالک میں میڈیا آزاد تصور کیا جاتا ہے وہاں پر آپ کو جامع میڈیا قوانین اور ان پر سختی سے عمل درآمد ہو تا نظر آئے گا جس کی ایک مثال برطانیہ ہے جہاں پر دیکھے جانے والے غیرملکی چینلز کو بھی ملکی میڈیا ریگولیٹر”آف کام” کے قواعد و ضوابط پر عمل کر نا پڑتا ہے۔ بصورت دیگر چینلز کو آف ائیر ہو نے کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانے کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔

حال ہی میں روس کے ایک ٹی وی چینل آرٹی کو ”آف کام” نے برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پر ہونے والے کیمیکل حملے کی رپورٹنگ میں غیر جانبداری کے اصول کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس سے قبل ایران کے پریس ٹی وی پر بھی بھاری جرما نہ ہوچکا ہے جبکہ پاکستانی چینلز بھی یہ دیکھ چکے ہیں کہ ”آف کام” کے قواعد وضوبط کی خلاف ورزی پر چینل کا لائسنس بھی مسنوخ ہو سکتا ہے ۔

یہ سختی صرف غیرملکی میڈیا تک ہی نہیں محدود نہیں ہے، 2003 میں بی بی سی نے ایک رپورٹ نشر کی جس میں ذرائع سے دعویٰ کیا گیا کہ ملک کے اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے پارلیمنٹ میں صدام حسین کے پاس موجود ہتھیاروں سے خطرے کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا تاکہ عراق پر حملے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس خبر پر حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اب بی بی سی ثابت کرے کہ وزیر اعظم نے جھوٹ بولا ہے جس کو بی بی سی نہ ثابت کرسکا اور ادارے پر اس کا اتنا زیادہ دباؤ پڑا کہ خبر دینے والی صحافی کے ساتھ ساتھ بی بی سی کے چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل کو گھر جانا پڑا اور اس خبر کے ”سورس” جو کہ برطانیہ وزرات دفاع کے ایک سینئر آفیشنل تھے، انہوں نے خودکشی کرلی ۔

اگر ہم پاکستانی میڈیا کا جائزہ لیں تو آج تک خبر غلط ثابت ہو نے پر کتنے لوگوں کو گھر بھیجاگیا ہے؟ حال ہی میں پیمرا کی جانب سے 17 نیوز چینلز کو من گھڑت خبر چلا نے پر نوٹس جاری کیے گئے۔ کیا ان چینلز کی طرف سے غلط خبر چلانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خبر کی تصدیق جیسے بنیادی اصول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، اگر ہے تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟

پاکستانی میڈیا پر “ذرائع” سے بہت سی اہم خبریں سامنے آتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں جب خبر کی تصدیق نہیں ہو پاتی تو ذرائع سے خبر دے دی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ “ذرائع” پاکستانی صحا فیوں کے پاس ہیں۔ اسی طرح قیاس آرائیوں کو حقیقت کے طور پیش کیا جا تا ہے۔

ہم نے میڈیا کی آزادی کے نام پر دہشت گردوں کے’لائیو انٹرویو‘ بھی دیکھے ہیں۔ کیا ہر شخص کو میڈیا پر پلیٹ فارم فراہم کرنا ہی میڈیا کی آزادی ہے یا ہر خبر کو رپورٹ کرنا ضروری ہے یا پھر صحافتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ خبر دینے سے پہلے دیگر عوامل کا بھی جائزہ لیا جائے؟ جیسے کہ لوگوں کے جان و مال کی سلامتی سے متعلق خبریں۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ میڈیا نے ایک انتہائی حساس کیس کے بارے میں ایسی خبر نشر کی جس سے ملک میں بڑے پیمانے پرنقص امن کا خطرہ پیدا ہوگیا ۔ میڈیا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ آسیہ بی بی ملک چھوڑکر چلی گئی ہیں جبکہ یہ حقائق کے بر عکس تھا۔ اس خبر پر کتنے مقامی اداروں یا پھر کسی غیر ملکی ادارے کے خلاف کارروائی ہوئی یا کسی ذمہ دار ادارے نے معذرت جاری کی؟

جبکہ کے اس کے برعکس بی بی سی جیسے ادارے نے 1926 میں برطانیہ میں مسلسل نو دن تک جاری رہنے والی عام ہڑتال، جس نے پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا، کی اتنہائی محدود کوریج کی کیونکہ اس سے ملک میں کیمونزم کے اثرات پھیلنے کا خطرہ تھا ، کیوں کہ ان دنوں یورپ میں کمیونزم پھیل جانے کا خوف طاری تھا۔ ادارے کا موقف تھا کہ اس ہڑتال کی خبر دینا ملکی مفاد کے منافی ہوگا۔

آپ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ، جمہوری اور لبرل ملک میں رہتے ہوں آپ کی آزادی کی ضمانت قانو ن کے احترام سے مشروط ہے، اگر قانون کا مذاق اڑائیں گے تو کوئی بھی معاشرہ آپ کی آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اسی طرح اگر معاشرے کا بڑا حصہ قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا اس کا نتیجہ سب کی آزادی میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔

پاکستان میں میڈیا کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، صحافی مشکل حالات میں کا م کرتے ہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ میڈیا ریگولیشن کی بات کی جائے تو اسے سنسرشپ سے جوڑا جا تا ہے ۔اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا کی ساکھ کو برقرار رکھنا اور میڈیا پر عوام کا اعتماد ہونا ضروری ہے ۔ایسا جامع میڈیا ریگولیشن اور ان پر سختی سے عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔

ٹاپ اسٹوریز