بیانیے کے قیدی

جمہوری حکمرانی کا دور ہو یا دوسرے راستوں سے اقتدار میں آنے والے حکمران ہوں، ایک بات جو دونوں میں مشترک رہی ہے، وہ ہے دوران اقتدار عوام سے دوری۔ ہر گزرتا دن انہیں عوام سے دور لے جاتا ہے اور پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ بڑے سے بڑا عوامی رہنما، جس کا کچھ عرصہ پہلے تک عوام کی نبض پر ہاتھ تھا، عوام سے بالکل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اہل اقتدار کے زوال کی حقیقی شروعات ہوتی ہے۔اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ زوال ہر اُس شخص، طبقے اور شعبے کا مقدر بنا جو زمینی حقائق سے نابلد اور وقت کے ساتھ چلنے سے قاصر تھا۔

عوام کی آواز، زمینی حقائق اور بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو جاننے کا ایک پیمانہ دانشور طبقے کی تحریریں، تجزیے اور مختلف پلیٹ فارمز پر ان کی طرف سے کیا جانے والا اظہار خیال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں پر جو بھی حکمران آیا اس کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام سے رابطہ کمزور ہوا۔ اس کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ دانشور اور رائے عامہ کی تشکیل کر نے والے افراد بھی عوام سے رابطہ توڑ بیٹھے۔

مواصلات اور رابطے کے اس جدید دور میں جس تیزی کے ساتھ حالات بدل رہے ہیں ان کے لیے اس تیز رفتار تبدیلی کی مکمل آگاہی رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور وہ نہ صرف عام لوگوں سے کٹتے جارہے ہیں بلکہ اُن کے اپنے تجزیات و مشاہدات بھی لمحہ موجود میں درپیش مسائل سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مختلف مغربی ممالک میں آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو آج بھی کسی پچھلی دہائی میں رہنا پسند کر تے ہیں، کسی کو 60 کی دہائی پسند ہے تو کوئی 70 کی دہائی کا اسیر ہے، حتیٰ کہ اسی دور کی مناسبت سے وہ اپنے لباس اور رہن سہن تک کا چناؤ کرتے ہیں۔ ان کے گھروں میں جائیں تو آج بھی آپ محسوس کریں گے کہ آپ 30 سے 40 سال پہلے کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ ان کے گھروں کی دیواروں پر آپ کو ماضی کے حکمرانوں کی تصویریں نظر آئیں گی، اسی زمانے کی ٹیکنالوجی نظر آئے گی ، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ وقت تھما رہے اور وہ اپنے پسندیدہ دور سے باہر نہ آئیں۔

ایسے ہی حالات ہمارے کچھ سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے بھی ہیں۔ یہ لوگ بددستور 70 اور 80 کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاست، عوام، عدالت اور ہئیت مقتدرہ حتیٰ کہ سب کچھ بدل گیا ہے لیکن ان لوگوں نے ابھی تک اپنے گھروں کی دیواروں پر بھٹو، ضیا الحق، حمید گل اور نسیم حسن شاہ وغیرہ کی تصویریں لگا رکھی ہیں۔ اس لیے انہیں ہر چیز میں سازش، جبر اور ناانصافی نظر آتی ہے۔

ان کے بقول ملک میں ہر چیز صرف ایک ادارہ کنٹرول کرتا ہے لیکن وہ اس امر کو بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں کہ جو سیاستدان 60 اور 80 کی دہائی میں فوجی حکمرانو ں کے ساتھ اقتدار کے مزے لو ٹ رہے تھے ان کے خاندان آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں موجود ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحا ل جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی ساتھیوں کی بھی ہے۔

جس طرح امریکہ کو ہر دور میں ایک دشمن چاہئے ہو تا ہے جسے ڈھال بنا کر وہ اپنے عالمی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ دشمن کبھی آپ کو کیمونزم اور کبھی دہشت گردی کی صورت میں نظر آتا ہے، اس طرح ہمارے کچھ نظریاتی دوست بھی ہر وقت ایک نہ نظر آنے والے دشمن سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ ان کے بقول یہ دشمن ان آوازوں کو بند کرنا چاہتا ہے، ان کو ٹی وی اسکرین پر نہیں دیکھنا چاہتا، لیکن اپنے بیانیے کے قیدی یہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا ٹی وی اسکرین سے غائب ہو جانا کسی دشمن کی سازش نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور رابطے کے دور کی سیاسی طور پر باشعور عوام میں ان کی غیر مقبولیت ہے۔ ان کا بیانیہ عوام کے مشاہدے اور وقت کے تقاضوں کے برعکس ہے۔

اگر ہم ماضی قریب میں اپنے ان ماضی پرست دوستوں کے تجزیوں پر نظر ڈالیں تو یہ بلند آواز میں دعوے کررہے تھے کہ “انتخابات نہیں ہو ں گے ” زمین آسمان ایک ہو جا ئے نظر نہ آنے والی قوتیں” عمر ان خان جیسے شخص کو ملک کا وزیر اعظم نہیں بننے دیں گی ” ،اپنی ان غلط ثابت ہوچکی پیش گوئیوں پر شرمندگی ظاہر کرنے کی بجائے اب یہ آپ کو حکومت کی ناکامیوں کا واویلا کرتے نظر آئیں گے اور شاید یہ بھی ہمارے اِن دوستوں کے ہاں ایک سازش کی ہی کڑی ہو کہ عمران خان کو وزیراعظم بنا کر ناکام کرکے نادیدہ قوتیں ہمیشہ کے لیے ملک میں دو پارٹی نظام رکھنا چاہتی ہیں۔

کچھ دانش ور اس خیال کے بھی اسیر ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کا بوریا بستر سمیٹ کر صدارتی طرز حکمرانی کی داغ بیل ڈالنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ غرض اپنے اپنے تیار کردہ بیانیے کی جزئیات کی مدد سے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے مستقبل میں پیش آنے والے حالات اور خاص طور پر تازہ ترین صورت حال کو معروضی طور دیکھنے کی کوئی سنجیدہ کاوش سامنے نہیں آرہی۔

ٹاپ اسٹوریز