احتساب، جواب طلبی اور ریاست

عام طور پر ہمارے ہاں مشکل اُمور کے انتخاب کو ایک بظاہر دلیرانہ اور منفرد سمجھا جانے والا کام قرار دیا جاتا ہے۔جو کسی حد تک سراہا بھی جاتا ہے اور دیگر لوگ اس سے توقع باندھ لیتے ہیں کہ اگر مذکورہ شخص نےاپنے منتخب کردہ مقصد میں کامیابی حاصل کرلی تو یہ ایک اعزاز کی بات ہوگی۔

یہاں تک تو ٹھیک بھی ہے اور کسی حد تک قابل تقلید بھی لیکن اگر مقصد کا انتخاب محض انفرادیت کے حصول تک رہا تو پھر نہ صرف تنقید کا کھلا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا بلکہ اگر معاملہ کسی قانونی یا ریاستی ذمہ داری سے متعلق ہو تو تعزیر کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔

ہمارے ہاں اس طرح کے خود اختیار کردہ اُمور کی فہرست سازی اگرچہ مشکل کام ہے لیکن اگر ہم بغیر نام لیے محض احتیاط کے پیش نظر فاصلے پر رہ کر اشارہ کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھیں تو زیادہ مناسب رہے گا اور عین ممکن ہے کہ ہم اپنی بات بھی پوری طرح مکمل کرلیں۔

مثال کے طور پر پاکستان میں ہمیں کئی برسر اقتدار لوگوں سے بعض اوقات غیر معمولی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں۔ تھوڑا آگے بڑھیں تو یہ غیر معمولی باتیں دعوؤں کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہیں۔ اگر صاحب دعوی کسی بڑے حکومتی یا ریاستی عہدے پر متمکن ہو تو عین ممکن ہے وہ اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اعلان کردہ منصوبے یا دعوئے کی تکمیل میں ریاستی وسائل یا افرادی قوت کو بھی استعمال میں لائے۔ اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو اس صورت میں وہ دعویٰ ایک طرح سے اس شخص کی مکمل ذمہ داری بن جاتا ہے جس میں ناکامی کی صورت میں اس کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔

اگرچہ تاریخی طور پر ہم کسی بھی طرح کی رضاکارانہ جوابدہی سے اجتناب کرتے ہیں اور اگر کسی طرح ہمارے ہاں ماضی کے کسی صاحب دعویٰ سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی گئی تو اکثر صورتوں میں جوابات نفی میں ملے۔

بالکل اس سے ملتی جلتی صورت حال کسی بھی برسر اقتدار یا ریاستی عہدے کے حامل شخص کی ہے جو اپنے دور اقتدار یا سرکاری ملازمت کے دوران اُن تمام معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے جو اُس نے دوران ملازمت انجام دیئے یا اُس کی سربراہی میں ہوئے۔ ہماری تاریخ ایسے جواب طلب واقعات و حادثات سے بھری پڑی ہے۔ لاتعداد ایسے سول اور سابق سرکاری عہدیدار آج بھی زندہ و جاوید ہیں، جن سے یقینی طور پر جواب طلبی ہونا چاہیے تھی لیکن نہیں ہوسکی۔

جواب طلبی اور احتساب دو بالکل مساوی اور یکساں اہمیت کے حامل اعمال ہیں، جن کی عدم موجودگی یا غیر فعالیت ریاستی سطح پر سب سے مہلک المیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ”پنڈورا بکس” کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا یا ہمارے ہاں اس طرح کی کسی کوشش کو “سازش” کے لفظ کی پخ لگا کر اس کو بے جان کردینے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن زندہ معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا اور اگرچہ دوران اقتدار ہی کسی ذمہ دار کو جواب طلبی اور احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر کسی بھی وقت اُس کو اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ ریاست اور اس کے اداروں کی بالادستی قائم رہے اور معاشرے میں یہ رحجان جڑ نہ پکڑ سکے کہ کوئی بھی طاقت ور ریاستی عہدیدار یا سول حکمران من مانی یا کرپشن یا پھر کسی دوسرے طریقے سے ریاست، اس کے عوام کی دولت یا اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے اور دوران ملازمت یا اقتدار اس کو کسی قسم کی بازپرس کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

لیکن بدقسمتی سے ہم اس قسم کی ریاستی و حکومتی احتیاط اور تدبیر کا اعادہ نہیں کرپائے اور یہی وجہ ہے کہ ریاست پاکستان کو کئی دہائیوں سے اونچے درجے کی بدعنوانیوں، غیرقانونی افعال، غیر ذمہ دارانہ فیصلوں اور اس قسم کی لاتعداد بیماریوں اور مسائل کا سامنا رہا ہے، جس کی شاید ہی کہیں مثال ملتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ادوار میں ہمیں کئی ایسی شخصایات بھی نظر آتی ہیں جو ریاست سے زیادہ طاقت ور تھیں، ریاست کا آئین اور قانون اُن کے سامنے بالکل بے بس تھے اور جب وہ ریاست کے اقتدار سے نکل گئے تو بھی اُن کی بے پناہ طاقت اور کسی قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہونے کی حیثت میں کوئی فرق نہ آیا۔

ہمارے ہاں عدالتیں بھی پوری قوت کے ساتھ موجود تھیں، ریاست کے احتساب کرنے والے ادارے حتیٰ کہ جواب طلبی کے لیے پارلیمنٹ جیسے آئینی فورم بھی موجود تھے لیکن کچھ بھی نہ ہوسکا اور نہ کوئی کچھ کرسکا۔ آج اگر ہم کسی طرف سے یہ شکوہ یا شکایت سنتے ہیں کہ صرف ہمیں جانبدارانہ احتساب کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ شکوہ کنندہ بے گناہ ہے بلکہ اس کا وسیع تر معنوں میں مفہوم یہ ہے کہ ریاست میں جواب طلبی اور احتساب کا یکساں نظام تعطل کا شکار رہا ہے یا اس کو مختلف ادوار میں محض اس وقت کی “ضروریات” کے مطابق حرکت میں لایا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام آج بھی تاریخ کے لاتعداد جواب طلب واقعات اور شخصیات کے احتساب جیسے معاملات کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال اصغر خان کیس ہے جس سے جڑے کرداروں سے جواب طلبی کی بجائے اس سارے قضیے کو ہی دفن کردینے کی باتیں ہورہی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کسی شخص، ادارے یا حکومت کا معاملہ نہیں بلکہ اگر اس کو گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ ریاست اور اس کے قانون کی بالا دستی سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ریاست اپنی بالادستی کے تصور سے آہستہ آہستہ دستبردار ہورہی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز