شکریہ ثاقب نثار

جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے اس وقت تک چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو چکے ہونگے- جس کے ساتھ ہی ہماری قومی روایت کے عین مطابق ہر جانے والے کی طرح ان پر بھی تنقید کا سلسلہ شرع ہوچکا ہوگا- چند روز قبل تک ان کے عدالت میں غیر مشروط معافیاں مانگنے والے اچانک “اخلاقی” جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا پر بیٹھ کر ہمیں ثاقب نثار صاحب کے عیب گنواینگے اور نئے چیف جسٹس کی تعریفوں کے پل باندھین گے- سوشل میڈیا بھی حسب توفیق اس میں اپنا حصہ ڈالے گا-

سیاستدانوں پر تو ہر وقت تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمیں کچھ مخصوص عہدوں پر تعینات افراد کے عیب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی نظر آتے ہیں- ثاقب نثار صاحب پر اگر آپ تنقید کرنا چاہیں تو بہت مواد مل جائے گا- بطور چیف جسٹس ثاقب نثار ملک بھر کی عدالتوں میں  زیرِ التوا مقدمات کی تعداد میں کمی لانے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ ان کے دور میں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 32 ہزار سے بڑھ کر 40 ہزار تک پہنچ گئی۔ ان پر یہ تنقید بھی کی جاسکتی ہی کہ وہ ایک غیر روایتی جج کے طور پر سامنے آئے، اسپتالوں پر چھاپے ہوں یا ڈیم فنڈ کے لئے مہم چلانا، ایسے بہت سے اقدامات ہیں جو اس سے پہلے ہم نے کسی چیف جسٹس کو کرتے نہیں دیکھا اور شاید دنیا میں کہیں اور بھی ہمیں ایسی مثال نہ ملے-

لیکن اگر ثاقب نثار ایک غیرروایتی جج تھے تو پاکستان بھی ایک غیرمعمولی ملک ہے- ایک ایسا ملک جہاں لوگ صبح سے شام تک حکمران طبقے کی بدعنوانی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے لیکن خود دو منٹ قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے کو تیار نہ ہوں، وہاں کوئی دیوانہ ہی قانون کی عملداری کا خواب دیکھ سکتا ہے-

جس ملک میں ریٹائرمنٹ کے بعد تو کیا طاقتور عہدوں پر فائز افراد بھی محفوظ نہ ہوں، ریاست کی عملداری کا یہ حال ہو کہ مقامی بااثر افراد کے خلاف کوئی گواہی نہ دے، وہاں ثاقب نثار نے بڑے بڑے مافیازپر ہاتھ ڈالا-

جہاں حکمران بدعنوانی کے خلاف تحقیقات کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں دیں، وہاں ثاقب نثار جیسا غیر روایتی جج ہی سیاسی گاڈ فادرز کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہمت کرسکتا ہے-

جس ملک میں شراب پر پابندی ہو لیکن ہر دوسرا بااثر شخص شہد شراب کی بوتل میں رکھتا ہو، جہاں نظام اتنا گل سڑ چکا ہو کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کی موجودگی میں پکڑے جانے والے شواہد تبدیل کر دیے جائیں، وہاں ایک غیرراوایتی جج ہی اس بدبودار نظام کو بے نقاب کرسکتا ہے-

جہاں پانی کی کمی کے باعث زمینیں بنجر ہو رہی ہوں، کسان خودکشیاں کر رہے ہوں اور دوسری جانب ہر سال کھربوں گیلن پانی ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ضائع  ہو جائے، لیکن عوامی نمائندے اپنے تعصبات، تنگ نظری اور سیاسی مفادات کی خاطر پانی کی ذخائر بنانے جیسے اہم مسئلے پر بات کرنے کی اجازت ہی نہ دیں، وہاں ثاقب نثار جیسا غیرراوایتی جج ہی اس اہم مسئلے کو قومی بحث کا حصہ بنانے کی کوشش کرسکتا ہے-

بابا رحمتا اتنا بھی سادہ نہیں کہ اسے معلوم نہ ہو کہ چندے سے ڈیم نہیں بنتے، اس کا مقصد مستقبل میں پانی کی کمی کا مسئلہ جو سنگینی اختیار کرنے والا ہے،اس جانب ہماری توجہ مبذول کروانا تھا- بابے چاہے تلخ مزاج ہوں یا نرم مزاج ایک چیز ان میں مشترک ہوتی ہے کہ وہ اگلی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی فکر میں رہتے ہیں-

ٹاپ اسٹوریز