اسدمنیرکانیب کےلئےوائٹ پیپر

برگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کی مبینہ خود کشی

یہ  2014 کی بات ہے ۔ فاٹا ریفارمز کے حوالے سے وفاقی و صوبائی سطح پر گفتگو ہو رہی تھی ۔ اسی سلسلے میں  ہمارے پراجیکٹ کا وفد ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کے لئے فاٹا سیکرٹیریٹ پشاور پہنچا۔ اس پراجیکٹ کا مقصد فاٹا میں اصلاحات کے عمل میں مدد فراہم کرنا تھا۔

جب ہم دفتر میں داخل ہوئے تو لوگ ہمارے وفد میں موجود ایک   مسکراتی شخصیت کو دیکھتے ہی  ان کی طرف لپکنے لگے۔  ان آگے بڑھنے والوں میں چوکیدار، ڈرائیورز اور کلاس فور کے ملازم  سب سے آگے تھے۔

سیکرٹیریٹ کی راہداریوں میں جو بھی ملتا گیا اس کےملنے کا انداز والہانہ تھا۔  میں یہ سلام دعا اور والہانہ پن دیکھ کر کافی متاثر ہوا۔ یہ شخصیت  مرحوم برگیڈئیر ریٹائرڈ اسد منیر کی تھی اور یہ میری بھی ان سے پہلی ملاقات تھی ۔

بعد کی گفتگو سے معلوم ہوا  کہ برگیڈئیر ریٹائرڈ اسد منیر جب انٹیلی جنس ایجنسی میں خدمات انجام دے رہے تھے  تو انہوں نے فاٹا سیکرٹیریٹ کے لوگوں کے ساتھ  وقت گزارا تھا۔  ریٹائرمنٹ کے بعد کسی افسر کا ایسے دفتر میں جانا  جس کا ان کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہ ہو اور وہاں  ان کو  سیئنیر اسٹاف اور بالخصوص جونئیر اسٹاف  کی طرف سے اس طرح کی پذیرائی ملنا اس بات کا ثبوت تھا کہ انہوں نے ڈیوٹی کے دوران  وہاں کتنا اچھا وقت گزارا  ہو گا۔ اس کے بعد اگلے ساڑھے تین سال کے عرصے میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔  پراجیکٹ میں  سب ان کو برگیڈئیر صاحب کہتے تھے ۔

برگیڈئیراسد زندگی سے بھرپور ایک جاندار شخصیت کے مالک تھے۔ مسکرانا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ گفتگو کے دوران  با مقصد چٹکلے چھوڑنا ان کا  معمول تھا۔ پراجیکٹ کے دوران کئی دفعہ رکاوٹیں اور مشکلیں درپیش ہوتی ہیں لیکن کبھی بھی ان کے چہرے پر پریشانی نہیں دیکھی۔ وہ ہر مشکل کو ایک چٹکلہ سنا کر پورے سٹاف کو ریلیکس  کر دیا کرتے تھے۔
چونکہ میں پراجیکٹ کے میڈیا سے متعلق امور دیکھتا تھا ۔ اسلئے پراجیکٹ سے متعلق میڈیا کے معاملات میں ہم دونوں  کی اکثر بات چیت ہوتی۔ دفاعی تجزیہ نگار ہونے کی وجہ سے وہ میڈیا کے بے شمار لوگوں کو براہ راست جانتے تھے۔

15مارچ کی صبح  برگیڈئیر صاحب کی موت کی خبر ایک جھٹکے سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ خبر کے ساتھ ہی یہ اطلاع ملی  کہ انہوں نے خودکشی کی ہے ۔ جس نے ان کے ساتھ وقت گزارا ہو وہ ایک لمحے کو بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی جان  اس طرح بھی لے سکتے ہیں ۔ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی ۔ اگرچہ اب ان کی خود کشی کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن ان کے ساتھ رہنے  اور کام کرنے والا کوئی بھی  بندہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔

انہوں نے خودکشی  سے پہلے سپریم کورٹ کے نام نیب کے حوالے سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا۔ جس میں انہوں نے یہ وضاحت دی کہ ان کی موت کا مقدمہ کس کے خلاف چلے گا۔ اس وائٹ پیپر کے اہم نکات درج ذیل ہیں ۔

نیب   غیر انسانی سلوک کرتی ہے

نیب  دواران تفتیش صرف کیس دائر ہو جانے پر ہتھکڑی لگاتی ہے

اور اس کے بعد میڈیا کے سامنے پریڈ کروائی جاتی ہے

 تفتیش کرنے والے آفیسر  نالائق ، بدتمیز ، غیر تربیت یافتہ  اور اپنا کام نہیں جانتے ہیں ۔

برگیڈئیراسد نے لکھا کہ میں نیب راولپنڈی میں ڈپٹی جنرل انوسٹی گیشن ونگ کے طور پر تعینات رہا ہوں  اور میں  ہمیشہ  ملزم  کے ساتھ  عزت سے پیش آتا ۔ میرے ماتحت کام کرنے والے تفتیشی افسران جانتے تھے کہ   جرم ،  سرکاری کام میں بے قاعدگی ، بھول چوک اور کسی معاملے کے نظر انداز ہونا کےالگ الگ  معنی ہیں ۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستا ن سے التجا کہ کہ وہ اپنی جان اس امید پر دے رہے ہیں کہ  چیف جسٹس  نیب میں اصلاحات  لائیں گے ۔ ایسا ادارہ جس میں نااہل افسران احتساب کے نام پر لوگوں کی عزتوں اور زندگی سے کھیل رہے ہیں۔

گزشتہ سال نیب کی طرف سے  ایسے جارحانہ اقدامات سامنے آئے جس نے شہریوں میں اپنی  ذاتی وقار اور عزت کے حوالے سے  خوف کی فضا پیدا کر دی ۔ نومبر 2018  میں نیب نے پنجاب یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر اور ان کے ساتھ چار دیگر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا۔ اسی طرح دسمبر  میں  نیب  کے گرفتار شدہ سرگودھا یونیورسٹی کے چیف ایگزیکٹو  محمد  جاوید کی جیل میں ہلاکت  اور ان کی ہتھکڑی میں  جکڑی ہوئی لاش کی تصویر  بھی  میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ، پروفیسر جاوید کی  موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

شاید برگیڈئیر صاحب  نیب اور میڈیا کی جانب سے  صرف الزام کی بنیاد پر اس طرح کی تذلیل برداشت  نہیں  کر سکتے تھے سو انہوں نے  موت کو عزت پر ترجیح دی ۔

نیب  (نیشنل اکاوئنٹیبلیٹی بیورو)نومبر 1999 میں  آرمی چیف  جنرل  ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا ۔  اس سے پہلے نواز شریف کے دور میں احتساب ایکٹ 1997بنایا گیا۔ بادی النظر میں  ان اداروں کا مقصد سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو نشانہ بنانا تھا لیکن یہ کبھی بھی آزاد ادارے کے طور پر کام نہیں کر سکا۔

نیب کے چئیرمین کو مقرر کرنے کے حوالے سے انتظامیہ ، عدلیہ اور مقننہ میں ہمیشہ رسہ کشی جاری رہی ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق  نیب  میں تقریبا بیس سال کے دور میں اب تک  ساڑھے پانچ ہزار کیس فائل کئے گئے ۔ جس میں  تین ہزار کیس  رقم کی رضاکارانہ واپسی یا پلی بارگین کے نتیجے میں حل کئے گئے ۔ جب کہ 460 کیسز میں سزا سنائی گئی ۔ تحقیق کے مطابق اس دوران 256بلین روپے ریکور کئے گئے ۔ جو 12 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں ۔ جب کہ نیب کا گزشتہ سال کا بجٹ دو ارب سے زائد کا تھا ۔

کیا  بیس سال میں  یہ کارکردگی  اطمینان بخش ہے؟

کیا نیب میں افسران کو تفتیش کے لئے دی گئی 9 مہینے کی  تربیت  کا معیار بہتر  کرنے کی ضرورت ہے؟

کیا نیب کے سربراہ کی موجودہ تعیناتی کا طریقہ کار درست ہے؟ اور اس پوزیشن کو سیاسی و عدالتی بوجھ سے آزاد کر کے ایک آزاد ادارہ بنانے کی ضرورت ہے ؟

کیا ملزم اور مجرم میں فرق ہونا چاہئے ؟  اور کیا دونوں مساوی سلوک کے مستحق ہیں  جب کہ قانون میں جب تک کسی بھی عدالت میں اپیل کا حق ہے ۔ ملزم معصوم  ہوتا ہے ۔

کیا ملزم کا میڈیا ٹرائل ہونا چاہئے ؟

بنیادی طور پر یہ ایسے سوالات ہیں ۔ جن کے جواب برگیڈئیر صاحب کو چیف جسٹس پاکستان  سے درکار ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز