ایران میں خوفناک سیلاب

ایران میں بارشوں اور سیلاب کے باعث 30 افراد ہلاک

ہمسایہ ملک جمہوری اسلامی ایران میں 19 مارچ سے شروع ہونے والی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے، جس کے باعث 1900 شہر، قصبے اور دیہات شدید متاثر ہوئے ہیں، ہزاروں سڑکیں، پل اور عمارتیں سیلاب کے باعث تباہ ہوگئی ہیں جبکہ شہریوں کی ہزاروں گاڑیاں بھی بےرحم موجوں کی نذر ہوگئی ہیں۔

ایرانی حکام کے مطابق تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کے باعث ابتک 70 افراد زندگی کی بازی ہار ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ اس وقت 1 لاکھ کے قریب افراد ہنگامی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ تقریباً ایک ہزار افراد کو متاثرہ علاقوں سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا ہے۔

ایران مجموعی طور پر 31 صوبوں پر مشتمل ملک ہے، اس کے 15 صوبے اس وقت سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، یعنی آدھا ایران اس وقت سیلاب میں گھر چکا ہے، اس بدترین سیلاب سے فارس، گلستان، خوزستان، ھمدان، لرستان، کرمانشاہ، کهگیلویه و بویراحمد اور چھارمحال بختیاری شدید متاثر ہیں۔

صوبہ لرستان کے 77 دیہات نہایت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں، بعض دیہاتوں کا زمینی راستہ تک منقطع ہوچکا ہے، جن جگہوں پر سیلاب نے زیادہ تباہی مچائی ہے، وہ صوبہ گلستان کا شہر آق قلا ہے۔

خوزستان صوبے کے شہر خرم آباد کا قریبی قصبہ دلفان ہے، اسی طرح صوبہ لرستان کا قصبہ پلدختر بھی تباہ ہوچکا ہے، صوبہ فارس کے مشہور شہر شیراز میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے، یہاں 19 افراد سیلابی ریلے کی نذر ہوئے ہیں۔

تیل کے ذخائر سے بھرپور علاقوں میں انرجی کمپنیاں امدادی کارروائیوں میں مدد کر رہی ہیں اور پمپس کے ذریعے پانی کا اخراج کیا جا رہا ہے۔ ایران کے ڈپٹی منسٹر روڈ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ عبدالہشم کا کہنا ہے کہ ابتک کی موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 275 دیہاتوں کا زمینی رابطہ منقطع ہے۔ 200 پل ٹوٹ چکے ہیں، جبکہ 400 کلومیٹر روڈ 100 فیصد صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔

ایرانی وزارت زراعت کا کہنا ہے کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق سیلاب سے زراعت کے شعبے میں 350 ملین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، مجموعی نقصانات کا فی الحال تعین ممکن نہیں، فی الحال ایران کی تمام امدادی تنظیمیں شہریوں کی جان و مال بچانے اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔

ایران کی معاشی صورتحال امریکہ کی جانب سے توانائی اور بینکاری پر لگائی جانے والی پابندیوں کے باعث دگرگوں ہے۔ معاشی پابندیوں، اکاونٹس سیز ہونے کے باوجود ایران کی جانب سے تاحال عالمی برادری سے مدد کی اپیل سامنے نہیں آئی۔

ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے باعث امدادی کارروائیاں رکاوٹوں کا شکار ہیں اور امدادی ہیلی کاپٹرز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ’’یہ صرف معاشی جنگ نہیں بلکہ معاشی دہشت گردی ہے۔‘‘

دوسری جانب امریکا نے ایران کی سپاہ  پاسداران انقلاب  کو دہشتگرد قرار دے دیا ہے۔ طول تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ملک نے دوسرے ملک کی فوج کے شعبے کو دہشتگرد قرار دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایران کو انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے، اس وقت امریکا اپنا بھیانک روپ دکھاتے ہوئے تہران کی مدد کے تمام راستے بند کرتا جا رہا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے فوری طور پر قومی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں “حقوق بشر مخالف سرگرمیوں کے مقابلے” کے منظور شدہ بل کی بنیاد پر مغربی ایشیا میں موجود “سینٹ کام (CENTCOM)” نامی امریکی افواج کو دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے۔ جس کے چند گھنٹوں بعد ہی ایران کی قومی سلامتی کونسل نے امریکی فوج اور سینٹ کام کو دہشت گرد جبکہ امریکی حکومت کو دہشت گردوں کی سب سے بڑی سرپرست حکومت قرار دے دیا ہے۔

ایران نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر رسمی طور پر امداد کی اپیل تو نہیں کی، مگر اپنے ہمسائیوں اور اسلامی ممالک سے مدد کی توقع ضرور رکھتا ہے، ابھی تک جرمنی، روس، کویت اور پاکستان نے امداد کا اعلان کیا ہے، جرمنی نے فوری طور پر ایرانی حکام کو چالیس کشتیاں دی ہیں، جن کے ذریعہ شہریوں کو محفوظ مقام پر متنقل کیا جا رہا ہے، مگر جہاں اتنی بڑی تباہی ہوئی ہو، وہاں ان کشتیوں کی تعداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے دو روز پہلے اپنے ٹوئٹ میں ایرانی عوام کے ساتھ مصیبت کی اس گھڑی میں ساتھ دینے اور تعاون کرنے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2010ء کے سیلاب میں پاکستان کے کروڑوں عوام متاثر ہوئے تھے اور اس سیلاب میں ایران امداد فراہم کرنے والے ممالک میں تیسرا بڑا ملک تھا۔

اسی طرح ایران نے 2005ء کے زلزلے میں بھی دل کھول کر پاکستانیوں کی مدد کی اور ایرانی ہلال احمر کی ٹیمیں کئی ہفتوں تک پاکستان میں موجود رہیں اور امدادی سرگرمیوں میں بڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس وقت امریکا کی جانب سے ایرانی امدادی ادارے ریڈ کریسنٹ (ھلال احمر) کے تمام اکاونٹس بھی سیز ہیں، امدادی ادارہ چاہتے ہوئے بھی اپنے عوام کے لیے پیسے نکلوا کر مدد نہیں کرسکتا۔

ایسے میں حکومتی اور عوامی سطح پر مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ آج احسان کا بدلہ چکانے کا وقت ہے، ایسے میں وزیراعظم کا فقط اتنا کہہ دینا شائد کافی نہ ہوگا کہ ہم مدد کے لیے تیار ہیں، بلکہ ایرانی حکام سے رابطہ کرکے اپنی طرف سے مدد کو یقینی بنایا جائے۔

قوموں کے رویوں کا پتہ مشکل وقت میں چلتا ہے، ایرانی قوم نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، گذشتہ سیلاب پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای خطبے میں پاکستانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے اور ایرانی قوم کو بڑھ چڑھ کر مدد کرنے کا کہا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم بھی مشکل وقت میں ایرانی بھائیوں کا ساتھ دیں۔

نوٹ:ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں 

ٹاپ اسٹوریز