پاک افغان تعلقات – ماضی و مستقبل

افغانستان کے صدر اشرف غنی کا حالیہ دورہ پاکستان کیا نتائج لائے گا اس کا احوال تو وقت ہی بتائے گا، فی الوقت ہم توقع ہی کر سکتے ہیں کہ سب اچھا ہو- اس وقت افغانستان اور پاکستان دونوں کو ایک دوسرے سے بہتر تعلقات کی شدید ضرورت ہے- افسوس اس بات کا ہے کہ اشرف غنی کے 2014 میں افغان صدر بننے کے بعد باہمی تعلقات میں گرم جوشی کی جو توقع تھی وہ پوری نہ ہو سکی۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف رسہ کشی شروع کر رکھی ہے- اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے- ہم یہ بات جانتے ہیں کہ جب افغانستان میں 1978 کا انقلاب ثور برپا ہوا تو پاکستان نے اسکا کوئ خاص خیر مقدم نہیں کیا تھا- پھر جب 1979 میں سویت یونین نے اپنی افواج افغانستان بھیجیں تو پاکستان میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق نے غیر جانب دار رہنے کے بجائے سویت یونین کی جگہ امریکہ کی گود میں بیٹھنا پسند کیا۔

اس کے برعکس بھارت نے ہمیشہ افغانستان میں حکومت وقت کی حمایت اور مدد کی- چاہے وہ ظاہر شاہ کی حکومت ہو یا سردار داؤد کی، نور محمد ترہ کئی کی حکومت ہو یا حفیظ اللہ امین کی، بھارت ہمیشہ افغان حکومت کی پشت پناہی کرتا رہا- اس کے نتیجے میں پاکستان اسے افغان بھارت گٹھ جوڑ کے طور پرد یکھتا رہا- بھٹو صاحب کے دور میں تو کئی افغان مزاحمتی رہ نما پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔

1980 کا پورا عشرہ پاکستان اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کیا جائے- اس سلسلے میں جنرل ضیاالحق کو سویت دشمنی سے زیادہ اپنے اقتدار کی طوالت عزیز تھی- امریکی مدد کے بغیر جنرل ضیا پاکستان میں اپنی حکومت برقرار نہیں رکھ سکتے تھے اور نہ ہی جمہوری قوتوں کو اس طرح کچل سکتے تھے جیسا کہ انہوں نے کیا۔

پھر جنرل ضیاالحق نے عوام کو بار بار بتایا کہ اگر سویت یونین کو افغانستان سے نہ نکالا گیا تو جہاد ناکام ہو جائے گا اور چوں کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے اس لیے ملک میں مدرسوں کا جال بچھانا بھی ضروری قرار پایا- اس کے نتیجے میں ایک طرف تو پاکستان میں افغان جہاد کے لیے مجاہدین تیار کیے جاتے رہے اور دوسری طرف ملک میں اسلحہ کی فراوانی ہوتی گئی۔

جو اسلحہ افغان مجاہدین میں تقسیسم ہونا تھا اس کی بڑی تعداد واپس پاکستان آ کر فروخت ہونے لگی- 1980 کے عشرے کے اواخر تک جنرل ضیا بھی فوت ہو چکے تھے اور سویت یونین بھی افغانستان سے چلا گیا تھا مگر اس کے بعد بھی اس خطے میں امن نہ ہوا کیوں کہ اب جو مجاہدین افغانستان پر قابض ہوئے وہ آپس میں دست و گریباں تھے۔

1990 کا پورا عشرہ افغان مجاہدین آپس میں لڑتے رہے جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑے- پھر1996 میں افغانستان پر طالبان کو مسلط کیا گیا اور اس عمل میں پاکستان طالبان کا حامی و مددگار تھا۔

یہ وہ تاریخ ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا- طالبان کے پانچ سالہ دور میں حکومت میں انہوں نے افغانستان کو قرون وسطی کی ریاست بنا دیا جس کا جدید دور سے کوئی تعلق نہیں تھا – بربریت پر مبنی قوانین متعارف کرائے گیے- خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا اور اس پانچ سالہ دور میں پوری دنیا میں اس کی مذمت ہوتی رہی- اس وقت صرف تین ممالک، پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، ایسے تھے جو طالبان کی حکومت کو جائز اور قانونی تسلیم کرتے رہے۔

2001 میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد صورت حال بالکل بدل گئی اور اس وقت پاکستان میں ایک اور فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے- انہوں نے فوراً پینترا بدلا اور بقول ان کے پاکستان کو پتھر کے دور میں جانے سے بچا لیا- اس طرح پرویز مشرف کو اپنے نو سالہ دوراقتدار کو استحکام دینے کا موقع ملا۔ اب پچھلے دس سال میں خود امریکہ افغانستان سے تنگ آ چکا ہے اور وہاں سے نکلنا چاہتا ہے- ایسے میں پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ ایک زیادہ پرامن اور دوستانہ پالیسی اختیار کرے- افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھارت سے بہتر تعلقات پر بھی منحصر ہیں- آج کل پاکستان کی جو معاشی صورتحال ہے اس میں ہم کسی مہم جوئی کے متحمل نہیں ہو سکتے- ہمیں اپنے تمام پڑوسیوں بشمول افغانستان، ایران، اور بھارت کے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں- اس کے سوا اس خطے میں امن کا کوئی اور راستہ نہیں ہے- اب ہمیں جنگی جنون سے نکلنا ہو گا اور سب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا نا ہو گا اور ایسا صرف اعلانات کے ذریعے نہیں بلکہ عملی طور پر کرنا ہو گا –

ٹاپ اسٹوریز