ابھی یا کبھی نہیں!

خبر ہونے تک

دستاویزی معیشت، ابھی نہیں کبھی نہیں

ڈاکومینٹینشن یا دستاویزی معیشیت کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیاد اور بدعنوانی، جرائم کو روکنے کی سب سے مضبوط دیوار ہوتی ہے۔ لہٰذا حکومت وقت کا اس جانب اٹھایا گیا قدم نہ صرف درست ہے بلکہ معاشی بہتری کے لیے نہایت ضروری بھی ہے لیکن اس کے وقت، طریقہ کار اور حکمت عملی پر کئی سوالات ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس ساری مشق کے پیچھے صرف آئی ایم ایف کے لیے پیسہ جمع کرنا تو نہیں ہے؟  کیا اس کے نتیجے میں ملک کی معیشت بھی بہتری کی جانب بڑھے گی؟ اور سب سے اہم اور سیاسی سوال یہ کہ کیا وہ دولت جو مبینہ طور پر ملک  سے لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعہ بیرون ممالک بھیج دی گئی کیا اس کی واپسی ممکن ہو سکے گی؟

ایسی ہی بہت سی باتیں اور سوالات ان دنوں عوام الناس کی زبان پر ہیں۔ میں ماہر تو بہت دور کی بات معیشت داں بھی نہیں ہوں البتّہ سیاست اور سیاسی صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے تئیں سیاسی تجزیہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔

وزیراعظم عمران خان کی نیت پر ذرّہ برابر کوئی شبہ نہیں، وہ نیک نیتی سے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور کررہے ہیں  شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افواج پاکستان نے بھی ملکی مفاد میں اپنے بجٹ پرمصالحت کی ہے اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کھل کر معاشی پالیسی اور حکومتی اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس کے باوجود خدشات اپنی جگہ موجود ہیں اور ان خدشات کی وجوہات بھی سامنے ہیں۔

آج ملک میں معیشت کا پہیہ رکتا نظر آرہا ہے، اس کی رفتارانتہائی سست ہوگئی ہے۔  جوڑیا بازار کراچی جیسے کاروباری مرکز جہاں محاورۃّ نہیں حقیقتاّ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی اور ایک آڑھتی جو دس دس ٹیلیفون رکھ کر کاروبار کرتا تھا وہاں اب یہ منظر نظر نہیں آتا، شنید ہے کہ صرف جوڑیا بازار کا بیس فیصد تاجر اپنا کاروبار سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، کچھ لوگ اچھے وقت کے انتظار میں چار چھ مہینوں کی چھٹّیاں منانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، نتیجے میں ایک  طرف جہاں کاروباری سرگرمیاں مفقود ہوں گی وہاں سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ نئے روزگار کی تلاش میں ہوں گے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ یہاں اربوں کا کاروبار کسی دستاویز کے بغیر ہوتا تھا جو نہ کسی ٹیکس نیٹ میں آتا تھا اور نہ اس کے صحیح اور غلط استعمال کا پتہ چل پاتا تھا۔ یہ سب کچھ صرف بازار میں کاروبار کرنے والے تاجر اپنے طور پر نہیں کرتے تھے اور نہ کرسکتے تھے ان کی مدد پوری سرکاری مشینری کرتی تھی، علاقہ پولیس  سے لے کر مختلف ایجنسیاں، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز غرض ہر وہ ادارہ جو حکومت کے ریوینیو جمع کرنے پر مامور تھا وہ بھی اپنا حصہ کسی دستاویز کے بغیر حاصل کرتا تھا، یہ محکمے اور ادارے آج بھی اسی ڈگر پر ہیں اور یہی وہ خدشات ہیں جو مجھ جیسے امید کا دامن مضبوطی پکڑنے والے شخص کو بھی بے چین کیے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقارعلی بھٹّو کی حب الوطنی اور نیک نیتی پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ان  کے اٹھائے گئے بعض اقدامات نامناسب اور قبل از وقت تھے، ان میں معاشی بہتری کے لیے اٹھایا گیا قدم جس میں  تمام بڑے بڑے صنعتی یونٹوں، بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کوقومی تحویل میں لینا  بھی شامل ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان دو لخت ہو چکا تھا، پاکستان کو قومی یکجہتی اور اقتصادی و سیاسی استحکام کی ضرورت تھی،  ایک ایسی سرکاری مشینری کی ضرورت تھی جو بھٹو صاحب کے وژن کے مطابق  کام کر سکے۔ قومی سرمایہ دار یا سرمایہ کار کی ضرورت تھی جسے سوشلزم اور کمیونزم کی اصطلاح میں قومی بورزوازی کہا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس بھٹو صاحب نے سوشلزم کی معیشیت کی بنیاد پر ان اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور انھیں اس بیوروکریسی کے حوالے کر دیا جو ذہنی طور پرحاکم تھی اور شاہانہ مزاج رکھتی تھی  اس بیوروکریسی نے بدعنوانی کی جو بنیاد رکھی اور اسے پروان چڑھایا اس کے ہولناک نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

ہندوستان جب انگریز کی غلامی سے آزاد ہوا اور دو آزاد حکومتیں وجود میں آئیں، اس وقت  بڑے سرمایہ کار بھارت کے حصے میں آئے۔ اس وقت بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ملک کے سب سے بڑے سرمایہ کاروں خاص طور سے برلا اور ٹاٹا سے ملاقات کی کہا کہ ملک آزاد ہوگیا اب آپ کو اقتصادی میدان میں صرف اور صرف بھارت کے لیے کردار ادا کرنا ہے سرمایہ کاروں نے کہا کہ پنڈت صاحب آپ تو سوشلزم کی بات کرتے ہیں پنڈت نہرو کا جواب تھا ابھی ہم سوشلزم کے لیے تیار نہیں ہیں ہمیں قومی بورزوا چاہیے ستّر سال پہلے بھارت میں پیداہونے والی قومی بورزوازی نے آج بھارت کودنیا کی تین چار بڑی معاشی طاقتوں کی صف میں لا کھڑا کیا  ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے جو یہ قدم اٹھایا ہے کہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح قبل از وقت تو نہیں، کیا یہ صحیح قدم درست وقت پر اٹھایا گیا ہے؟ کیا اس کے لیے سرکاری مشینر ی کو تیار کیا گیا ہے؟ سرمایہ کاروں کو کہیں اور منتقل ہونے سے روکنے کی حکمت عملی بنائی گئی؟ کیا ملک میں سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی عروج پر ہے؟ کیا ہمیں قومی بورزوازی کی ضرورت نہیں ہے یہی  وہ خدشات اور سوالات ہیں جو پریشان کیے ہوئے ہیں  اگر ان سب  کا جواب مثبت ہے تو پھر یہی نعرہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدم بڑھاؤ عمران خان قوم تمھارے ساتھ ہے۔

ٹاپ اسٹوریز