نیا پاکستان، پرانی دوا

خبر ہونے تک

نیا پاکستان اور پرانی دوا

کیاغریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر، اشیائے ضرورت اور خدمات کو مہنگا ترین کر کے  کسی بھی ملک کی معیشت بہتر بنائی جا سکتی ہے؟ کیا ملک میں ریوینیو پیدا کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے سرکاری ادارے بنانا، انھیں بحال کرنا اور بہتر بنانا ضروری نہیں؟ کیا صنعتکاروں اور تاجروں کو سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟

اگر ان سوالات کے جوابات مثبت ہیں تو پھر سارا بوجھ خدمات اور اشیائے ضرورت پر کیوں؟ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، پورٹس، ریلوے، واپڈا کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے کی ترقی پر توجہ کیوں نظر نہیں آتی؟ یہ ادارے جو ساری معیشت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں ان سے ریوینیو پیدا کرنے کے لیے اقدامات سامنے کیوں نہیں آتے؟

اسی طرح آئی ٹی انڈسٹری جو جدید دور کی بنیاد ہے اس پر توجہ کیوں نہیں؟ کیا ان اداروں کو بہتر طور پر چلا کر عالمی اداروں، خاص طور سے آئی ایم ایف کے قرضے واپس نہیں کیے جا سکتے؟ یقیناً کیے جا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے نیک نیتی، جامع منصوبہ بندی، ٹھوس حکمت عملی اور ایک صاف ستھری انتظامیہ درکار ہے۔ شاید سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے پاس بھی نیک نیتی، منصوبہ بندی، حکمت عملی اور صاف ستھری انتظامیہ کی کمی ہے لہٰذا انہوں نے بھی آسان حل یہی نکالا کہ خدمات اور اشیائے ضرورت کو مہنگا ترین کردیا جائے۔

جن اشیاء کے بغیر زندگی کا گزارنا ممکن نہیں وہ ہر حال میں خریدی جائیں گی اور حکومت کو بھی ہر حال میں ریوینیو مل جائے گا جبکہ ریوینیو کے اصل منبع یعنی سرمایہ دار، زمیندار، سول ملٹری بیورو کریٹس ایسے بہت سے راستے جانتے ہیں جن سے وہ اپنی دولت بچا سکتے ہیں۔ اسمبلیوں میں بھی یہی لوگ ہوتے ہیں لہٰذا ایسے قوانین کا بننا اور ان پر عمل درآمد کرنا ممکن ہی نہیں، یوں ان سے ریوینیو حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ستّر سالوں کے دوران یہی ہی ہوتا آرہا ہے اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔

سروسز یعنی خدمات پر ٹیکس اور وہ بھی غیر معمولی۔۔۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کا فرد اپنے زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ ریاست کی شاہ خرچیوں کے لیے بھی دن رات مشقّت کی چکّی میں پستا رہے، اس فرد کا کوئی مستقبل نہیں، اس کے بچّوں کو اچھے اسکولوں میں تو کیا پیلے اسکولوں میں بھی پڑھنے کا حق نہیں کیوں کہ گھر کا ایک فرد جتنا کما سکتا ہے اس سے دو وقت کی روٹی ہی میسّر آ سکتی ہے۔

کرایہ، بجلی اور گیس کا بل، ٹرانسپورٹ اور دوا دارو کے لیے ایک اور کمانے والا چاہیے، اس کے لیے والدین اپنے آٹھ دس سال کے بچّوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کمائی پر لگا دیتے ہیں۔ ہم جنھیں ملک کا مستقبل کہتے ہیں ان کا اپنا کوئی مستقبل نہیں ہے، کیا ملک اس طرح پنپ سکتے ہیں؟ کیا کبھی یہ سوچا گیا ہے کہ اگر ان لوگوں کا منہ کا نوالہ چھن گیا تو انجام کیا ہو گا؟

ریاست کے امور چلانے کے لیے درکار وسائل حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے یا عوام الناس کی؟ ۔صاف ظاہر ہے کہ یہ فرض حکومت کا ہے لیکن ہمارے ملک میں شاید ایسا نہیں ہے، حکمرانوں کی جانب سے لیے گئے قرضے بھی غریب عوام ہی ادا کرتے ہیں، غریب عوام زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیا ء اورخدمات یعنی بجلی، پانی، گیس، ٹراسپورٹ کو مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں، کسی بھی شے کے استعمال سے پہلے اس کا ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں تنخواہ دار طبقہ تو تنخواہ لینے سے پہلے ٹیکس ادا کرتا ہے اور یہ سب کچھ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ حکمرانوں کی عیاشیوں کے لیے کرتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے بھی وہی کیا جو اس سے قبل کی حکومتیں کرتی آئی ہیں اور شاید اس سے بڑھ کر کیا، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بیس سے پچاس فیصد تک اضافہ کر دیا، سرکاری ملازمین کی اشک شوئی کے لیے تو تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا مگر نجّی شعبے کو کھلی چھوٹ دے دی جو تنخواہیں بڑھانا تو درکنار الٹ انہیں کم کررہا ہے، کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں روکے ہوئے برطرفیاں کر رہا ہے۔

برطرف ملازمین کی بقیہ تنخواہوں، پرویڈنٹ فنڈز، گریجویٹی اور پنشنز روک رہا ہے، افسوس یہ ہے کہ حکومت وقت بحیثیت حاکم وقت لوگوں کے جائز حقوق بھی انہیں دلانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ملک کے ترقی و تحفظ اور عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کرے مگر ستّر سالوں سے ہر آنے والی حکومت سارا الزام جانے والی حکومت کے سر ڈال کر اور اپوزیشن پر کام نہ کرنے دینے کے الزامات لگا کر اپنی مدت پوری کرنے میں لگی رہتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے جب سیاست شروع کی تو ان کی تمام تر توجہ معیشت پر تھی،  بیس سال پہلے بھی ان کے عوامی جلسوں میں اکثریت غریب بلکہ انتہائی غریب عوام کی ہوتی تھی جنھیں یہ نہیں پتہ ہوتا تھا کہ معیشت کیا ہوتی ہے، اس وقت بھی ان کی تقاریر میں ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور ہر ایک پیدا ہونے والا پاکستانی کتنے کا مقروض پیدا ہورہا ہے جیسے الفاظ پر مشتمل ہوا کرتی تھیں اور بھی ان کا بیانیہ یہی ہے۔

بیس سال پہلے عمران خان پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ایک طرف جہاں ملک کی دولت لوٹنے والے حکمرانوں سے یہ رقم نکلوانے کی بات کیا کرتے تھے وہاں وہ زور دے کر یہ بات کہا کرتے تھے کہ فلپائن کی طرح آئی ایم ایف کو ہم صاف منع کردیں گے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں اور ہماری معیشت بہتر ہو گی تو ادا کریں گے۔

وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ستّر کے عشرے میں فلپائن نے ایسا ہی کیا تھا اور آئی ایم ایف کو فلپائن کی مدد کرنا پڑی تھی لیکن سیاستداں عمران خان اور وزیر اعظم عمران خان میں اب واضح فرق نظر آرہا ہے، آج دو سابق حکمران جیلوں میں ضرور ہیں مگر لوٹی گئی ملکی دولت کا کوئی پتہ نہیں، قرضوں کی ادائیگی کے لیے غریب عوام کو ہی نچوڑا جا رہا ہے، ہر پاکستانی پہلے سے زیادہ مقروض ہو چکا ہے، آئی ایم ایف کومنع کرنا تو کجا اس کی ہر بات مانی جا رہی ہے، شہر کچرے کے ڈھیر بنتے جا رہے ہیں، پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے اور بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔

کیا ہوگا کہاں جائے گا یہ پاکستان۔۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز