اگر مگر …. لیکن‬

میرا کالم

پاکستان میں میڈیا نے ” اگر مگر ” پر خوب خوب کھیلا ۔ بعض اوقات تو معاملات بے ہودگی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی توہین تک پہنچ گئے۔ ناکام کرکٹرز یہ بتانے لگے کہ ٹی وی لگا کر ہمیں سنو اور جو ہم کہتے ہیں اس پر عمل کرو۔۔۔۔

پھر چونکہ چنانچہ بھی شروع ہو گیا ۔۔۔۔

یہ 5 جولائی کی بات تھی کہ میں ایک ” ماہر ” کو سن رہا تھا جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سرفراز کو بابر اور وہاب کو قتل کر دے، یہ وہی ماہر ہے کہ جب بابر 70 کے قریب اسکور کر کے آؤٹ ہوا تو چلانے لگا۔ ایسے ہوتے ہیں بڑے کھلاڑی ۔۔۔ سینچری  نہیں کر سکتا ہے۔ اگلی بار جب بابر نے سینچری کی تو بولا”  اگر ” اس کو ڈبل میں کنورٹ کرتا تو بات ہوتی۔

تو یہ اگر بڑی ظالم چیز ہے۔ تاریخ بدل دیتا ہے اس لفظ کا استعمال۔ “مورکھ” کے بس میں ہوتا تو اگر ہٹلر کے ساتھ لگا کر 4 کتابیں لکھ دیتا جو فیس بک پر ” دو خریدو دو فری۔۔۔۔” کے اشتہار کے ساتھ بک رہی ہوتیں ۔ مصنف کو صرف یہی کہنا تھا ” اگر ہٹلر جنگ جیت جاتا اور اگر روس محاذ نہیں کھولتا”

ہمارے ملک کی تاریخ اگر سے بھری ہوئی ہے

۔۔۔۔ اگر غلام محمد کو اتنی ترقی نہیں ملتی

۔۔۔ اگر سکندر مرزا نوکری کرتے رہتے اور اقتدار پر قبضہ نہیں کرتے

۔۔۔ اگر ایوب خان یہ نا سوچتے کہ ’سکندر مرزا ہی کیوں میں کیوں نہیں‘

۔۔۔۔ اگر غلام محمد اسمبلی نا توڑتے

۔۔۔ اگر سپریم کورٹ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رکھتے ہوئے اسمبلی کو توڑنا غیر قانونی قرار دے دیتی

۔۔۔۔ اگر مشرقی پاکستان کے جذبات کا احساس کیا جاتا

۔۔۔۔ اگر ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت ختم نا کی جاتی

۔۔۔۔۔ اگر بھارتی سازشوں کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاتا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کریں گے

۔۔۔۔۔ مشرقی پاکستان میں ائر فورس کے 6 نہیں 50، 60 طیارے ہو تے

۔۔۔۔ اگر 72 کے آئین کو بے شکل نہیں کیا جاتا

۔۔۔۔۔ اگر بھٹو سے وفاداری کا بیان جاری کر کے ضیا الحق دغا نہیں کرتا

۔۔۔۔ اگر بھٹو صاحب دن کے وقت پی این اے سے معاہدہ کر لیتے

۔۔۔ اگر ضیا جعلی کیس میں ججوں کو بلیک میل کر کے بھٹو کو پھانسی نا دلاتا

ارے بھائی ۔۔۔۔ کہاں تک سنو گے اس اگر کی داستان!

یہ وہی ہے ۔۔۔۔

مگس کو باغ میں جانے نا دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

پاکستان کے باغ میں مگس گھس آئی ۔ ہر لہجہ ترش ۔۔ ہر بات پر نہیں سے آغاز اور پھر اقرار

باغ پاکستان میں یہ مگس اور اگر 1948 کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ لیاقت علی خان کا قتل اور اس سے قبل قائد اعظم کی ایمبولنس میں ایسی خرابی کہ بابا ماری پور روڈ پر شدید بیماری کی حالت میں انتظار کرتے رہے ۔

اب بلاول بھٹو زرداری اور ان کے ابا مسلم لیگ ن سے مل لئے تو اگر کے ساتھ ” ارے” کا بھی اضافہ ہو گیا۔ ہم نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے جانے پر 5 جولائی کو پیلزپارٹی کا کوئی ڈھنگ کا انقلابی چہرہ نہیں دیکھا۔ وہی دقیانوسی تقاریر وہی ۔۔۔۔ چھوڑیں لیکن یقین ہے کہ اگر آصف علی زرداری حوالات میں نہیں ہوتے تو یہ جو تقریریں ہوئی ہیں وہ بھی نہیں ہوتیں۔

اگر مقررین کو دیکھیں تو رضا ربانی کے سوا کوئی ایسا نا تھا جو بھٹو کی جد وجہد سے عملاً واقف ہو ۔۔۔ رضا ربانی ابھرتے ہوئے  انقلابی سیاست داں اور اور ہم ‘ نو سیکھتر’ صحافی تھے یوں اس زمانے کے انقلابیوں کی طرح رہتے تھے۔

لیکن نا جانے اس عمر میں رضا ربانی نے کیا غلطی کی کہ آصف زرداری نے ان کو سینیٹ چیئرمین کا دوسرا دور دینے سے انکار کر دیا حالانکہ وہ جیت سکتے تھے اور سنجرانی سے زیادہ ووٹ لے سکتے تھے۔

تو یہ بھی بہت بڑا ” اگر ” ہے کہ رضا ربانی دوسری بار چیئرمین ہو جاتے تو کیا برا تھا؟ اب تبدیلی لائیں گے تو کیا ہاتھ آئے گا؟

مجھے پتہ ہے کالم کے اس مرحلے پر بہت سے دوست بے مزا ہوئے ہوں گے لیکن اس پر یقین رکھئے

غالب برا نا مان، جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ، سب اچھا کہیں جسے

حقیقت یہ ہے کہ ہم “اگر ” کے بھنور میں پھنس چکے ہیں۔۔ اگر عمران خان جاگیرداروں، ابن الوقت اور موقع پرستوں کو انتخابات سے چند روز قبل پارٹی میں شامل کر کے ٹکٹ نہیں دے دیتے تو آج بھی تحریک انصاف انقلابی جماعت ہوتی اور اگر اس کی انتخابی جیت سچی ہے تو آج اچھے لوگوں کے ساتھ اقتدار میں ہوتی۔ مشرف ضیا زرداری کے لوگ ساتھ نا ہوتے اور نا ہی عمران خان کو اتنی مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ۔۔۔نا ہی رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کو اس حد تک متنازعہ بنایا جاتا۔

بقول شہر یار آفریدی ۔۔۔۔3 ہفتے سے رانا ثنا اللہ کی نگرانی ہو رہی تھی ۔۔۔ لیکن تصویریں نہیں دینگے۔ برسوں سے یہ ریت رہی کہ جو بھی بندہ ہیروئن کی اسمگلنگ میں پکڑا جاتا ہے اس کی تصویر منشیات اور افسران کے ساتھ بااصرار شائع کرائی جاتی ہے ۔ اس بار یہ اصرار کیوں کہ تصویر نہیں دینگے

اور ابھی مریم نواز شریف پریس کانفرنس کررہی ہیں، دعویٰ یہ ہے کہ نواز شریف کو سزا دینے والے جج نے بتا دیا ہے کہ “فیصلہ دیا نہیں دلایا گیا ہے”

مریم نواز شریف  نے کہا کہ جج ارشد ملک  کے مطابق ان کا ضمیرانہیں کچوکے دے رہا ہے لہذا وہ یہ انکشافات کر رہے ہیں۔ مریم نے وڈیو کلپ بھی دکھائے۔

اف۔۔۔۔ کیا یاد آگیا۔  ” مڈ نایٹ جیکالز”

نواز حکومت ۔۔۔۔ سیف الرحمن احتساب کمیشن کے سربراہ ۔۔۔ مقدمہ بے نظیر کے خلاف ۔ جج قیوم ملک ۔۔۔ سیف الرحمن کی آواز ” آپ سزا دینے میں دیر لگا رہے ہیں ۔۔ صاحب ناراض ہے

جج قیوم ۔۔۔۔حکم کریں کتنی سزا دینی ہے

سیف ۔۔۔7 سال سے کم کیا ہو گی

جج ۔ دس سال کردیتے ہیں ۔۔۔۔

آف ۔۔۔ یہ اگر بہت تنگ کر رہا ہے۔ اگر یہ ماضی میں نا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔۔۔

جج ارشد ملک کی نواز شریف کے حق میں گواہی کے بعد مریم نواز شریف کی یہ پریس کانفرنس عالمی توجہ حاصل کرے گی لیکن

۔۔۔۔میرا سوال اب بھی یہی ہے کہ اگر پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف پورے 50 اوورز کھیل لیتا تو آج سیمی فائنل میں ہوتا۔

ٹاپ اسٹوریز