حیدر منزل کا انہدام

خبر ہونے تک

کراچی کی بے ہنگم اور بے ترتیب ترقی، جسے لوٹ مار کہنا زیادہ بہتر ہو گا، نے نہ صرف اس کی ڈیموگرافی تباہ کر دی ہے بلکہ تاریخ اور ثقافت کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ حیدر منزل کا انہدام اور اس کی جگہ پلازہ کی تعمیر نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان اور خاص طور سے تحریک پاکستان کی تاریخ اور ثقافت کو بھی مسمار کرنے کے مترادف ہے۔

حیدر منزل سندھ کے قوم پرست رہنما سائیں جی ایم سید کی رہائش گاہ ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان اور بعد ازاں اپوزیشن، خاص طور سے قوم پرست سیاست کا مرکز بھی رہا ہے، حیدر منزل پاکستان بننے سے پہلے پاکستان تھی، بد قسمتی سے بہت عرصہ بعد اسی حیدر منزل سے پاکستان مخالف نعرہ بھی بلند ہوا۔

سائیں جی ایم سید دریائے سندھ کے کنارے واقع ایک گاؤں سن کے رہنے والے تھے، یہ گاؤں کراچی سے تقریباّ تین سو کلو میٹر دور ہے۔ سائیں جی ایم سید سن سے کراچی منتقل ہو گئے اور 1920 کے عشرے میں کراچی کی مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ انگریز مخالف تحریک میں بھی سر گرم ہو گئے۔

1929 میں کراچی لوکل بورڈ کے نائب صدر بنے، اس دوران اندرون سندھ اور کراچی کے چند صاحب ثروت لوگوں نے سولجر بازار کے علاقے میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ سولجر بازار اور اس سے ملحق علاقے مختلف مذاہب کے لوگوں میں تقسیم تھے، ان میں پارسی، مسیحی اور ہندو شامل تھے لہٰذا نشتر پارک کے ساتھ مسلم سوسائٹی کے نام سے کچھ بنگلے تعمیر ہوئے ان میں ایک حیدرمنزل بھی تھی۔

حیدر منزل 1932 میں تعمیر ہوئی، اس کے ارد گرد سندھ کے نامور سیاستدانوں، دانشوروں اور کاروباری افراد کے بنگلے بھی تھے، ان میں خان بہادر ایوب کھوڑو، مرزا قلیج بیگ، سردار نبی بخش بھٹو، جمشید نوسروانجی، الانہ اور ہاشوانی خاندان بھی شامل ہیں۔ ان سب رہائش گاہوں میں حیدر منزل کو سیاسی طور پر مرکزیت حاصل تھی، 1930 کی دہائی جہاں پورے ہندوستان میں انگریز مخالف تحریک کا دور تھا وہاں کراچی کو بمبئی پریزیڈینسی سے الگ کرانے کی جدوجہد کا دور بھی تھا اور اس کا مرکز یہی حیدر منزل تھی۔

1934 میں اسی حیدر منزل میں سائیں جی ایم سید نے سندھ پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی جس کی جدوجہد کے نتیجے میں 1935 میں کراچی بمبئی سے الگ کرا لیا گیا، تحریک پاکستان میں کراچی اور ڈھاکا دوشہر مرکزی اہمیت کے حامل تھے اور کراچی میں حیدر منزل اس تحریک کا مرکز تھی جہاں قائد اعظم محمد علی جناح بھی اجلاس کیا کرتے تھے۔

سائیں جی ایم سید نے قوم پرست سیاست کی بنیاد رکھی جس کے باعث ہندوستان بھر کے قوم پرست خواہ وہ کسی بھی قومیت سے ہوں سائیں کے رابطے میں رہتے تھے، کہا جاتا ہے کہ باچا خان یعنی خان عبدالغفّارخان جب بھی کراچی آتے ان کا ٹھکانہ حیدر منزل ہی ہوا کرتا تھا۔ سائیں جی ایم سید نے خان غفار خان کے دراز قد کے باعث ان کے لیے خصوصی پلنگ بنوایا تھا۔ ہندوستان کے کانگریسی راہنما مولانا ابوالکلام آزاد اور سبھاس چندر بوس راہنماؤں کی بھی حیدرمنزل میزبان رہی ہے۔ اللہ بخش سومرو اور سائیں جی ایم سید کے درمیان ہونے والے اختلاف کو ختم کرانے میں مولانا آزاد کا کردار رہا ہے، وہ دہلی سے کراچی آئے اور سندھ کے دونوں راہنماوں میں مصالحت کرائی۔

1940 میں سائیں جی ایم سید کے مسلم لیگ سندھ کا صدر بننے کے بعد حیدرمنزل کو تحریک پاکستان کے مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی سائیں جی ایم سید نے تحریک پاکستان کی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پیش کرنے اور اسے منظورکرانے کی ساری جستجو اسی منزل سے کی یہاں تک کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ میں ہونے والے انتخابات اور تشکیل پانے والی حکومتوں میں بھی سائیں کا بنیادی کردار رہا یوں حیدر منزل اس وقت بھی مرکزبنی رہی۔

قیام پاکستان کے بعد سیاسی اور انتظامی منظر نامہ تبدیل ہو گیا مگر حیدر منزل کی مرکزیت اور اہمیت تبدیل نہیں کی جا سکی، قیام پاکستان کے بعد باوجوہ سائیں جی ایم سید حکومت مخالف یہاں تک کہ ملک مخالف ہو گئے اور انھوں نے سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگا دیا، اس تحریک کا مرکز بھی یہی حیدر منزل بنی۔ ون یونٹ کے خلاف جدوجہد ہو یا کالا باغ ڈیم کے خلاف تحریک، مرکز حیدر منزل رہا۔

بنگلہ دیش کے قیام سے قبل ساٹھ کی دہائی کے آخری دور میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی حیدر منزل آئے، سائیں جی ایم سید سے مذاکرات کیے، نشتر پارک میں اپنے تاریخی جلسے کی ساری تیاری انھوں نے حیدر منزل سے ہی کی۔ پاکستان میں تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد خاص طور سے قوم پرست اتحاد کی تشکیل بھی اسی منزل سے ہوئی۔ سائیں جی ایم سید کی زندگی میں ان کی اپنی جماعت جئے سندھ تحریک کے علاوہ کالاباغ ڈیم کے خلاف گرینڈ الائنس، سندھ نیشنل الائنس (ایس این اے) پاکستان آپریسڈ نیشن موومنٹ (پونم) کا مرکز بھی حیدر منزل رہا ۔

حیدر منزل کے قیام سے لے کر سائیں کی وفات تک ملک بھر کے سیاسی زعما یہاں آتے رہے، ان میں مرحوم پیر صاحب پگارا، شاہ مردان شاہ، عبدالمجید سندھی، سر شاہنواز بھٹو، سردار پیر بخش بھٹو، سردار غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، عبدالصمد اچکزئی، بیگم نسیم ولی خان سمیت دیگر سیاسی قائدین شامل ہیں۔

حیدر منزل کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ اسے مسلسل سب جیل قرار دیا جاتا رہا ہے، سائیں جی ایم سید نے عمر کا زیادہ حصہ اسیری میں گزارا اس دوران حیدر منزل سب جیل بنی رہی۔ 1995 میں سائیں کی وفات کے بعد بھی حیدر منزل کی اہمیت اور حیثیت برقرار رہی، ان کے پوتے اور سیاسی جاں نشیں سید جلال محمود شاہ متحرک رہے۔

ان کی سندھ یونائٹڈ پارٹی کا مرکز بھی حیدر منزل رہا لیکن اب یہ مرکز تبدیل ہو رہا ہے، وقت کی سنگ دلی کے ہاتھوں اس منزل کے مکین تو مجبور ہو گئے لیکن حکومتوں کو کیا مجبوری تھی کہ وہ اس تاریخ کو محفوظ نہ کرسکے۔ حیدر منزل جس نے ملک کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا وہ آج کمرشلائزیشن کے ہاتھوں اپنا وجود کھو رہی ہے، ایک ایک کر کے سارے تاریخی بنگلوز اور جگہیں مسمار کی جا رہی ہیں، بلڈرز اور حکمرانوں نے ملک کی تاریخ اور ثقا فت کو بیچ کر اپنی تجوریاں تو بھر لیں لیکن اپنی نسل کو تاریخ، ثقافت، آرکیٹیکچر اور آرکائیو کے حوالے سے محروم رکھنے کے عمل میں ایک اور باب کا اضافہ کردیا۔

ٹاپ اسٹوریز