کب، کیسے اور کیوں؟

آوازہ

کوہ قاف کے بلند و بالا پہاڑوں میں جنم لے کر اُن کی ترائیوں میں پرورش پانے والے رسول حمزہ توف سے کسی نے پوچھا:
”مرد کو کب جھکنا چاہئے؟“۔

رسول حمزہ نے اپنے ابا کی یادوں کی پٹاری کھولی اور اُ ن میں سے ایک نگینہ چن کر کہا:
”تب جب وہ پھول کی خوشبو سونگھے یا چشمے سے پانی پینے لگے“۔

پھر سوال ہوا کہ مرد شریف کی صبح کیسی ہو؟

رسول حمزہ نے پھر ابا کی یادوں سے استفادہ کیا اور کہا:
”آنکھ کھولے تو اُس خواب کے بارے میں سوچے جو اس شب اس نے دیکھا، دڑنگے مارتے ہوئے یہاں وہاں منہ نہ مارتا پھرے“۔

پھراُس سے اچھے حکمران کے بارے میں پوچھا گیا تو اسے اپنے ہم جولی ابو طالب کی یاد آئی جو وقت بے وقت قصے سنایا کرتا تھا۔

ابوطالب نے کسی زمانے میں اسے ایک ظالم حکمرا ں کی کہانی سنا رکھی تھی جوتند خو تھا، جھگڑالو تھا، گلیئر تھا اور لالچی بھی خوب تھا۔ ایک بار کسی گستاخ شاعرکے چند مصرعے اس کے کان میں پڑ گئے جن میں اس کی انہی خوبیوں کا ذکرکیا گیا تھا۔ حکمراں یہ سن کر پہلے تو آگ بگولا ہوا اور اس بندہ گستاخ کو زندہ جلا دینے کا حکم دیا، پھرکچھ سوچتے ہوئے حکم دیا کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔

ایک درباری نے ہمت دکھائی اورعرض کی کہ حضور! اس یوٹرن کی حکمت؟ بادشاہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ آخر اس دیس میں کوئی تو سچ بولنے والا ہو۔

اس پر پوچھا پوچھنے والے نے کہ ایسا صاحب دل حکمراں کہاں پایا جاتا ہے؟ یہ سوال سن کر رسول حمزہ زہر خند ہوا اور بولا  ’کہیں بھی نہیں، لیکن تم مجھے بتاؤ کہ اتنا سچ بولنے والے شاعر کہاں پائے جاتے ہیں؟‘ رسول حمزہ نے تو پوری سفاکی کے ساتھ حکم سنا دیا کہ ایسے شاعر اور ادیب کہیں نہیں ملتے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اپنے معاشرے کے بارے میں ہم اتنی آسانی کے ساتھ ا یسا نہیں کہہ سکتے۔

برادرم مظہر شہزاد خان نے جب اینٹ گارے کی کھرچن میرے سامنے رکھی اور حکم دیا کہ اس پر آپ کو کچھ لکھنا ہے تو سچ جانئے کہ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مجھے خامہ بگوش یعنی مشفق خواجہ مرحوم کی یاد آئی۔ انھوں نے ایک بار لکھا تھا کہ کتابیں تو اس دنیا میں صبح شام لکھی جاتی ہیں لیکن سوچنا چاہئے کہ کیا انھیں شائع بھی ہونا چاہئے؟

اللہ سچ کی توفیق دے تو حقیقت یہی ہے کہ یہ کتاب دیکھ کر میرے دل میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات پیدا ہوئے۔

پھر جب پسِ سرورق شازیہ کی نظم کا ایک مصرعہ یعنی”مجھے راستہ نہیں ملتا“ پڑھا تو میری رائے مزید پختہ ہو گئی۔ اسی دم مجھے رسول حمزہ یا اُسی سرزمین کے کسی اور فرزانے کے ایک قول کی یاد آئی کہ اخروٹ کی شباہت کو دیکھ کر اسے پھینکنا مت، اس کے مغز سے لطف اندوز ہو کر فیصلہ کرنا ۔ پس میں نے اینٹ گارے کی کھرچن کا ذائقہ چکھا اور اس کا قتیل ہوا۔

جب کوئی شخص صبح سویرے آنکھ کھلنے کے بعد اپنے بستر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور رات دیکھے ہوئے خواب کو ایک بار پھر دیکھنے کی کوشش کرے تو اسے قلم و قرطاس کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ادب کا جنم شاید ایسی کیفیات میں ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے ادب کی دنیا کے دستور نرالے ہیں۔

ہم ادب پارے کو بھی رات کے کسی پہر پیدا ہونے والے بچے کی طرح سمجھتے ہیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی والدین کو اس کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ایک ادیب بھی جب اپنے ذہن میں اٹھنے والے خیالات اور دل میں پیدا ہونے والے جذبوں کا اظہار کر بیٹھتا ہے تو رسم دنیا سے مجبور ہو کر خود سے سوال کر بیٹھتا ہے کہ یہ کیا ہے؟

شاید ایسے ہی سوالات کے گھیراؤ سے الجھ کر شازیہ بھی یہ کہہ اٹھی ہوں گی کہ مجھے راستہ نہیں ملتا۔ اس پر میرا جوابی سوال شازیہ سے یہ ہے کہ بی بی! اگر تمھیں راستہ نہیں ملا تو پھر الفاظ و معانی کا یہ گورکھ دھندا کیا ہے جسے دیکھ کر رسول حمزہ کی یاد آتی ہے؟

میرا خیال ہے کہ اتنی تمھید کے بعد اب بات کہنا نسبتاً آسان ہو گئی ہے۔ ادب، شاعری، موسیقی اورمصوری وہی ہے جس کا اکھوا دل سے پھوٹے اور جب وہ دن کی روشنی میں دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے آئے تو ان کے دل میں بھی تھوڑا سا میٹھا درد اٹھے، اُس درد کی ٹیس سے کچھ سوالات پیدا ہوں، اُن سوالات کی نشتر سے پکے ہوئے پھوڑے سے کوئی گندا مادہ پھوٹ بہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے رسول حمزہ کے جگری یار ابوطالب کے ذہن میں جنم لینے والے تند خو حکمراں نے جب سچ بولنے والے شاعر کا کلام سنا تو اُس کے من کے کسی گوشے میں سوئے ہوئے ضمیر نے انگڑائی لی اور کہا کہ کوئی تو ہو جومیرے ظلم کے سامنے سچ بولے۔

اس سے پتہ یہ چلا کہ ادب وہ ہے جو دل سے نکلے اور دلوں تک پہنچے۔ مجھے لگتا ہے کہ شازیہ کی تخلیقات، چاہے ان کا شمار کسی صنف میں ہوتا یا نہ ہوتا ہو، ادب کا درجہ بہرحال رکھتی ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح رسول حمزہ کے قلم پاروں کو کسی صنف کا پابند کرنا مشکل ہے۔

شازیہ نے بتایا ہے کہ یہ سارا دفتر جو انھوں نے ہمارے لیے پھیلا رکھا ہے، ان کی ڈائری کی دین ہے، اب اگر کوئی اسے ستائش باہمی کا شاخسانہ نہ گردانے، میں تو یہ کہوں گا کہ شازیہ کی ڈائری پر رسول حمزہ کے ابا کی یادوں کی پٹاری یا لنگوٹیے ابوطالب کی کہہ مکرنیوں کا گمان ہوتا ہے جو نہ جانے کس وقت پولا سا منہ بنا کر ہم سے سوال کرڈالے کہ یوٹرن کب،کیسے اورکیوں لیا جاتا ہے؟

ٹاپ اسٹوریز