تک دھنا دھن ۔۔ نا

صدقے اور واری جاؤں اس حکومت کے جس نے ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ درجنوں محاذ ایک ساتھ ہی کھول لئے ہیں۔ اب اس کو نیا پاکستان بنانے کی جلدی کہیں، عزم و حوصلے کی فراوانی کہیں، کئے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کہیں یا حزب اختلاف کی زبان میں بے وقوفی اور نا اہلی کہیں۔

لیکن ٹھہرئیے!

کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل یہ سوچئے کہ ستر برس گزر گئے، پاکستانی عوام نے کبھی اس طرح عدسے کی آنکھ کے نیچے کسی حکومت کو نہیں رکھا بلکہ حکومت آنے کے ایک برس تک تو عوام کو ہوش نہیں ہوتا تھا کہ حکومت کے ارادے کیا ہیں۔ یہ حکومت عام لوگوں کے لئے کون سا قارون کا خزانہ لے کر آئی ہے۔ اگر پہلی حکومتوں کی کارکردگی پر بھی عوام اور میڈیا اسی طرح جذباتی ہو کر بال کی کھال نکالا کرتے تو آج مملکت خداداد کا یہ حال نہ ہوتا اور ملک قرضوں میں نہ ڈوبا ہوتا۔

لیکن خان صاحب وزیراعظم کیا بنے گویا ہر کسی نے تلوار سونت لی، تیر کمان نکل آئے، ہر ایک کی زبان پر سوال ہے اتنی مہنگائی کیوں ہو گئی بھائی؟ اب کیا ہماری سانس پر بھی ٹیکس لگاؤ گے؟ تاجروں نے ہڑتال کر دی۔ لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی توبھی کیا فائدہ کہ بجلی کا بل تو پنکھا چلانے کی اجازت بھی نہیں دے رہا۔ حفیظ شیخ آئی ایم ایف کی بانسری بجا رہے ہیں، شبر زیدی ٹیکسوں کا سیلاب لے آئے اور ملبہ سب کا سب حکومت پر آ پڑا ہے۔ گویا تک دھنا دھن کی دھن پر ایک رقص بسمل جاری ہے۔

جناب والا جہاں دن میں ایک روٹی پانی سے کھا کر سو جانے والے ریڑھی بان کو اپنے وزیراعظم سے شکوہ ہے تو وہیں پراڈو پر سوار امرا طبقہ اور 6، 7 فگرز میں تنخواہیں لینے والے کئی صحافیوں کو بھی حکومت سے کچھ کم شکوہ نہیں۔ بلکہ کچھ تواس حکومت کو اپنے لئے ویسا ہی خطرہ تصور کر رہے ہیں جیسا کنٹینر پر کھڑے ہو کر تقریر کرنے والے عمران خان اپوزیشن کے لئے خطرہ تصور کیے جاتے تھے۔

شکوہ صرف زباں بندی کا ہوتا تواس مسئلے پرصحافت تقسیم نظر نہ آتی۔ جو صحافی تحریک انصاف کی حمایت کرتے رہے، ان سے ہی حساب مانگا جائے گا تو معاملہ گھمبیر تو ہو گا۔۔۔ اور حکومت اس مسئلے پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

پاکستان کے صحافیوں نے آزادی صحافت کے لئے جیل بھی کاٹی اور جانیں بھی دیں لیکن اثاثوں کی بابت کسی نے آج تک دریافت نہ کیا کیونکہ ماضی کے صحافیوں کے اثاثوں کی مالیت ایمانداری ، چودہ گھنٹے کی محنت سگریٹ کی ڈبیا، اس کے مسلسل کش اور سچائی ہوا کرتی تھی۔

سگریٹ کی ڈبیا، پان کی بیڑی، کرائے کے گھر اور سائیکل یا سکوٹر سے ہوتی ہوئی بات گاڑیوں، بنک بیلنس اور غیر ملکی دوروں تک پہنچی تو حساب لمبا چوڑا ہو گیا اور دینا بھی مشکل۔ لیکن کم تنخواہ کا صحافی احتجاج کے اس جھنجٹ میں پڑنے کو تیار نہیں۔ اسکو اپنے گھر کا چولھا بجھ جانے کی فکر ہے۔ اسکے مسائل کچھ اور ہیں یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر صحافی برادری کا اکٹھ مشکل ہے۔

اس محاذ سے نکلیں تو آگے مریم نواز صاحبہ ایک کے بعد ایک ویڈیو ریلیز کرنے میں مگن، جلسے کرنے پر آمادہ اور 19 جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کے لئے تیار نظر آتی ہیں۔ ’حکومت چند دن کی مہمان ہے‘، ’حکومت نا اہل ہے‘ جیسے نعروں نے پی ٹی آئی کا دن کا چین اور رات کا آرام چھین لیا ہے۔

اب عدالت میں پیشی پر شنید ہے کہ گرفتاری ہو گی۔ کیونکہ وزیراعظم این آر او دینے کو تیار نہیں اور سابق وزیراعظم پیسہ دینے کو آمادہ نہیں۔ مریم نواز کی عدالت میں پیشی کے بعد تک دھنا دن کے سر مزید بلند ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

اور اگلی اونچائی پر سینیٹ کے چیئرمین کی تبدیلی کا محاذ کھلا پڑا ہے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بلکہ ہمارا توخیال ہے کہ ضمیر بھی نہیں ہوتا۔ سنجرانی صاحب کو بلوچستان سے وفاق کی علامت کہہ کر چئیرمین سینیٹ بنانے والے آج ان کو زہر آلود نگاہوں سے سے گھور رہے ہیں۔

متحدہ اپوزیشن اب کی بار میر حاصل بزنجو صاحب کو اپنا دل دے بیٹھی ہے۔ گویا ثابت ہوا کہ سب مفادات کا کھیل ہے کہ وفاق کی علامت جیسے الفاظ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور زرداری صاحب تو ویسے بھی میکاولی کی سیاست کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔

اب اگر ان کے سامنے حکومت فاشسٹ نہ بنے تو کھیل ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ایک طرف اقتدار کے اس کھیل میں پی پی اور پی ایم ایل این کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں تو حکومت بھی ہار ماننے کو تیار نہیں خواہ اس کے لئے گھوڑے ہی کیوں نہ خریدنے پڑیں۔

فیصل جاوید اور نعیم الحق صاحب نے واضح کر دیا کہ ن لیگ کے 12 سے 13 ارکان حزب اختلاف کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ اپوزیش کو چاہئے کہ عدم اعتماد واپس لے ورنہ بہت بڑا نقصان ہو گا۔ صادق سنجرانی بھی اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر متحرک ہو چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے اس سال کے یہ آخری چھ ماہ بہت کڑے اور فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ ایک بات طے ہے کہ عمران خان اقتدار کی سیاست سیکھ گئے ہیں، وہ مخالفین کو شکست دینے کے لئے تمام داؤ پیچ اپنائیں گے۔

تک دھنا دھن تو ہو ہی رہا ہے’ نا’ کب ہو گا یہ وقت بتائے گا۔

ٹاپ اسٹوریز