سیاسی، اداراتی انتشار

خبر ہونے تک

ملک میں انتشار پھیل رہا ہے، پاکستان انتشار کی گرفت میں ہے، حالات بگڑ رہے ہیں ۔۔۔۔ یہ جملے، یہ الفاظ ان دنوں پاکستان کے سیاسی دانشوروں کے حلقے میں سننے میں آ رہے ہیں یعنی سیاسی فلسفے کی سدھ بدھ رکھنے والے اہل دانش اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک انتشار کی لپیٹ میں ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ اس کی ایک بڑی شکل سامنے آئے گی۔

انتشار کا لفظ بائیں بازو کے سیاسی فلسفے کی لغت میں بڑی شد و مد کے ساتھ آیا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ نہ کوئی قانون، نہ قانون کی حکمرانی، ہر ایک اپنی مرضی کا مالک، افراتفری، رشوت ستانی، انصاف کا قتل، جتھے بندیاں کوئی شخص، کوئی ادارہ نہ اپنا کام کرتا ہے نہ دوسرے کو کرنے دیتا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال ہے، ۔ہر ادارے نے جیسے یہ سمجھا ہوا ہے کہ ملک کا سارا بوجھ اس کے کندھوں پر دھرا ہوا ہے، دیگر ادارے اپنا کام کرنے کے بجائے فقط بدعنوانی میں ملوث ہیں۔

انتشار کی حقیقی شکل افراتفری کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر پھیلی لا قانونیت ہوتی ہے لیکن چونکہ معاشرہ اور سماج کافی آگے بڑھ چکا ہے اور مادی ترقی نے پرانے فلسفے اور الفاظ کی ہیّت بھی بدل دی ہے، اسی لیے آج ہم اس کی وہ شکل نہیں دیکھتے جو اس فلسفے کی ایجاد کے وقت ہوا کرتی تھی۔

آج کے دور میں لاقانونیت سڑکوں کے بجائے ایوانوں، اداروں اور افراد میں نظر آتی ہے اور یہ سڑکوں کی لاقانونیت سے زیادہ خوفناک ہے۔ ملکی سیاست میں صورتحال یہ ہے کہ حکومت صبح ایک بات کرتی تو شام کواس کا الٹ ہوجاتا ہے۔ بجٹ، ڈالر، ایمنسٹی، ٹیکس اور آئی ایم ایف کے حوالے سے جو کچھ ایک ماہ میں ہوا وہ حکومتی انتشار کی بڑی مثالیں ہیں۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے حوالے سے یہ کنفیوژن پھیلا رہا کہ یہ سرکاری ہے یا غیر سرکاری، یہ بھی انتشار کی ہی ایک مثال ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن نے بھی بگاڑ پھیلانے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی، بجٹ، ڈالر اور خاص طور سے مہنگائی کے حوالے سے دعوے کیے گئے کہ حکومت کو من مانی نہیں کرنے دیں گے اور عوام کو ریلیف دلائیں گے مگر ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، کل جماعتی کانفرنس بلائی کہ حکومت گرائیں گے مگر چیئرمین سینیٹ کو گرانے پر اکتفا کر لیا گیا۔

کیا حزب اختلاف بھی حکومت کی طرح عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے؟ جب ملک میں حکومتی اور اپوزیشن کی یہ صورت حال ہو گی تو ترقی کا پہیہ کیسے چلے گا اور کون چلائے گا۔ دونوں جانب کے دعوے کیسے پورے ہوں گے
اس صورت حال کو بہتر بنانے کی سب سے بڑی ذمہ داری عدلیہ کی ہوتی ہے کیونکہ اس کے انصاف پر مبنی فیصلے کسی فرد یا ادارے کو حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتے۔

تاہم ہمارے ہاں نواز شریف کی سزا کے حوالے سے احتساب عدالت کے جج کی وڈیو یا پھر ریکوڈک کیس میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا ہرجانہ بھی عدالتی فیصلے ہی ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے سے ہماری عدلیہ بالخصوص متحرک رہی ہے، وزرائے اعظم کی برطرفی کے فیصلے ہوں یا انھیں جیل بھیجنے کے احکامت، یہ کام عدلیہ نے ہی کیے ہیں۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ عدلیہ کے یہ فیصلے انصاف کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں یہ کہنا غلظ نا ہوگا کہ ان سے ملک سیاسی اور انتظامی لحاظ سے ایک فیصلہ کن مقام پر آ کھڑا ہوا ہے۔

ججوں سے متعلق ریکارڈ شدہ مواد سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے، نوے کی دہائی میں جسٹس قیوم اور سیف الرحمٰان کی گفتگو کی آڈیو ٹیپ سامنے آ چکی ہے، یہ دعوے اور الزامات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ ہر دور میں عدلیہ کے لوگوں کی ہی نہیں انتظامیہ اور مقننہ کے لوگوں کی بھی گفتگو ٹیپ کی جاتی رہی ہے اور اس صورتحال سے وزیر اعظم، وزرا اور ارکان پارلیمنٹ بھی محفوظ نہیں۔

ماضی ہونے والی اس طرح کی صورتحال نے کوئی بڑا مسئلہ کھڑا نہیں کیا جس سے انتشار پھیلتا، لیکن اس مرتبہ جج کی گفتگو اور ان کی سرگرمیوں کی وڈیو خصوصی اہمیت اختیار کر گئی ہے اورجس طرح حزب اختلاف بالخصوص مسلم لیگ ن نے اس معاملے کو اٹھایا اس نے سیاسی اشتعال ہی پید ا نہیں کیا بلکہ اعلٰی ایوانوں میں بھی کھلبلی مچا دی ہے۔

اس پر حکومت کی جوابی کارروائی یعنی زلزلہ متاثرین کے فنڈز میں خورد برد کی برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کو جس طرح حکومتی حلقوں نے اچھالا اس سے کوئی فائدہ اٹھانے کے بجائے صورت حال الٹ ہو گئی۔ جس طرح کہا جا رہا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ 2005 میں آنے والے زلزلے کے وقت میاں شہباز شریف ملک بدر تھے اور پنجاب کے وزیر اعلٰی چوہدری پرویز الہٰی تھے۔

ویسے بھی غیر ملکی فنڈز عموما وفاقی حکومت کو ملتے ہیں اور اس وقت ملک میں مسلم ق کی حکومت تھی، اس اعتبار سے شہباز شریف پر زلزلہ زدگان ن کی امداد میں خورد بر د کا الزام سمجھ سے باہر ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اعلٰی عدلیہ نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔

حکومت نے تو سارا ملبہ عدلیہ پر ڈال دیا حالانکہ یہ پوری طرح ایک انتظامی معاملہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزارت قانون نے ان جج صاحب کا تبادلہ کر دیا۔ ملک کی اعلٰی عدلیہ کے سامنے ایک عام معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے فیصلے کے دور رس نتائج ہوں گے اور ملک بھی انتشار کی صورتحال سے باہر نکل سکے گا۔

ٹاپ اسٹوریز