شاہ زندہ کی روٹیاں 

آوازہ

شاہ زندہ کی روٹیاں 

شاہ زندہ کی سیڑھیاں دکھائی دیں تو میزبان نے کہا، ذرا رک جائیے، پھر کہا کہ اب یہ سیڑھیاں آپ نے گنتے ہوئے چڑھنی ہیں۔ وہ کیوں؟ نوید جب کسی بات سے لطف لیتے ہیں تو مسکراہٹ پہلے ان کے چہرے پر کھلنے لگتی ہے۔ نوید الٰہی مسکراتے جاتے اور سوال کرتے جاتے۔ میزبان کوئی اتنا کم گو تو نہیں تھا لیکن اس بار اس کا زور باتوں کے بجائے مسکراہٹ پر تھا۔ کہنے لگا، اس لیے کہ واپسی پر بھی آپ کویہی سیڑھیاں گننی پڑیں گی۔ بھئی وہ کیوں؟ اس بار سوال کیے بغیر میں بھی نہ رہ سکا۔ میزبان کی مسکراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا ، کہنے لگا کہ یہ راز تو واپسی پر ہی کھلے گا۔

شاہ زندہ آنے کا پروگرام بنا تو ہمارے جذبات کچھ اور تھے لیکن جب ہم یہاں پہنچے تو کیفیت مختلف ہو گئی۔ شاہ زندہ کا نام اہل پاکستان کے لیے کچھ اجنبی نہیں۔ ضلع جھنگ میں سرگودھا جھنگ روڈ پر مرکزی شاہراہ سے کافی نیچے شاہ جیونہ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی تمام تر شہرت ایک قبر کی وجہ سے ہے۔ صاحب قبر شاہ زندہ بخاری کہلاتے ہیں، اس رعایت سے بعضے یہ گاؤں بھی ۔ زیادہ آسانی کے لیے سمجھ لیجئے کہ یہی وہ بزرگ ہیں فیصل صالح حیات جن کی اولاد اور سجادہ نشین ہیں لیکن جب سمر قند کے شاہ زندہ سے تعارف ہوا تو یقین جانیے، ہمارے سر عقیدت سے جھک گئے۔

آپ کا تعلق خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور صرف تعلق نہیں، آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور صرف بھائی نہیں، حضور کی تجہیز و تکفین کی سعادت جن بزرگوں کے حصے میں آئی، آپ کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے۔ نام نامی ہے، حضرت قثم ابن عباس ابن عبد المطلب رضی اللہ عنہ۔

لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ایک معرکے میں جب آپ کی شہادت ہو گئی، تب اللہ کی قدرت سے وہ اپنا سر اپنے ہاتھ میں لے کر چلتے چلتے جنت کے باغوں میں جا داخل ہوئے جہاں وہ اب بھی حیات ہیں۔ لوگوں کا عقیدہ یہ بھی ہے آپ کے روضہ مبارک پر جاتے ہوئے زائر اگر سیڑھیاں گنتے ہوئے چڑھے اور واپسی پر بھی اس کی گنتی میں اتنی ہی سیڑھیاں آئیں تو حاضری قبول، دل کی مرادیں پوری اور بندہ ہلکا پھلکا ۔

میں سیڑھیاں گنتا ہوا مزار مبارک سے باہر آیا اور سوچا کہ اس شہر والوں کی باتیں اور خیالات کتنے مزے کے ہیں۔۔۔ جب ہم اس شہر میں آئے تھے تو میں نے میزبان سے پوچھا تھا کہ اس شہر کی سوغات کیا ہے۔ کہنے لگا کہ روٹی۔ روٹی۔۔۔ میں نے حیرت سے دہرایا تو اس نے کہا کہ ہاں روٹی ۔ اس شہر کی روٹی میں جادو ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب کوئی سفر کے لیے نکلتا ہے تو گھر والے اسے روٹی پیش کرتے ہیں، وہ روٹی کا ایک نوالہ لیتا ہے اور بقیہ لوٹا دیتا ہے جسے سنبھال کر رکھ لیا جاتا ہے پھر جب وہ بخیر وخوبی واپس گھر لوٹتا ہے تو بچی ہوئی روٹی سے ایک بار پھر لطف اندوز ہوتا ہے، گویا یہ روٹی بھی ایک دانہ ہے جس پر اس کے نام کی مہر لگ جاتی ہے اور جب تک وہ اپنے حصے کا دانہ کھانہ لے قدرت اسے محفوظ رکھتی ہے۔

اسی طرح اس شہر والا جب کسی کو عزت دینے کے لیے اس کے گھر جاتا ہے تو روٹی لے کر جاتا ہے۔ صاحب خانہ بھی بالکل اسی طرح اپنے مہمان کی عزت افزائی کرتا ہے۔ مجھے مہر خداداد خان لک یاد آ گئے۔ مرحوم جونیجو دور میں سینیٹ میں قائد ایوان ہوا کرتے تھے، میرے دوست خلد آشیانی مہر حبیب الرحمن کے ماموں تھے۔ حبیب کے والد محترم نے ایک بار بتایا تھا کہ خداداد نے بے نظیر دی روٹی پکائی تے جیل لگا گیا (مہر خداداد نے بے نظیر بھٹوکی دعوت کی اور انجام کار جیل جا پہنچے)۔ یہ جنرل ضیا کے مارشل لا کے دنوں کی بات ہے۔ مجھے اس شہر یعنی سمر قند اور اپنے دیس کے مزاج میں کافی مماثلت محسوس ہوئی۔ سمر قند والے عزت دینے کے لیے روٹی پیش کرتے ہیں اور ہم عزت دینے کی خاطر روٹی بھی پیش کرتے ہیں، اس جرم کی پاداش میں جیل جانا پڑے تو اس سے بھی نہیں گھبراتے۔

ابھی پرسوں اترسوں ایک عزیزہ گھر تشریف لائیں، کچھ دیر بیٹھیں پھر اچانک اٹھ کھڑی ہوئیں تو عرض کیا کہ ایسی جلدی بھی کیا ہے، کچھ دیر بیٹھو، حال احوال کرو پھر کھانا کھا کر جانا۔ اس بی بی نے ترنت کہا کہ نہ بھائی! روٹی اپنی اپنی، اس مہنگائی میں اب یہ عیاشی ممکن نظر نہیں آتی،کھائیں گے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ یہ سکت اب ہم میں نہیں۔

پتہ چلا کہ رکھ رکھاوَ اور اقدار بھلے کتنی ہی اچھی ہوں اور بندگان خدا بھی چاہے آپس میں کتنی محبت کریں، ہاتھ تنگ ہونے لگیں تو کھلے دل بھی بجھنے لگتے ہیں، گویا کمزور معیشت بھی غارت گر ِتہذیب ہے۔ مجھے پھرسمرقند کی یاد آئی۔ اس شہر پر اللہ کا بہت کرم ہے۔ آندھی آئے، طوفان آئے، خواہ کوئی انقلاب ہی کیوں نہ آ جائے، روٹی پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

وہ جو ہمارے میزبان نے اس شہر کی روٹی اور اس کے جادو کے بارے میں بتایا تھا، اس کی حکایت بھی نہایت لذیز ہے لیکن نسبتاً طولانی ہے، لہٰذا دعا کیجئے، کبھی اس کے بیان کا موقع بھی ملے۔۔۔ نیز یہ دعا بھی کرتے رہیئے کہ معیشت کے تمام تر ضعف کے باوجود ابنائے وطن کے پیٹ بھرے رہیں، آنکھیں شاد رہیں اور سمرقندیوں کی طرح اللہ ہم پر بھی اپنا فضل و کرم فراواں رکھے ۔

ٹاپ اسٹوریز