پراعتماد پاکستان کا جنم

ذاتی رشتہ ہو یا پیشہ ورانہ زندگی، شک اور عدم اعتماد آپ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ کسی قسم کے دماغی خلل اور وسوسوں کے شکار شخص کے ساتھ زندگی گزارنا یا کام کرنا عذاب سے کم نہیں۔ اس طرح اگر ریاست کا ایک ستون اس بیماری کا شکار ہو تو ریاست خود مذاق بن جاتی ہے۔

ہماری حالیہ تاریخ کچھ ایسی ہی رہی ہے، گزشتہ دور حکومت میں سیاسی قیادت اور ملک کے دیگر اہم اداروں کے مابین عدم اعتماد خوفناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خود غرض اور وسوسوں کی شکار سیاسی قیادت نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جب قیادت کے ذہن میں ہر وقت یہ وسوسہ ہو کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور ہر چیز میں وہ نہ نظر آنے والا ہاتھ ڈھونڈیں تو اس کا نتیجہ ڈان لیکس جیسے واقعات میں نکلتا ہے، چند سو مذہبی انتہا پسند دارالحکومت کو یرغمال بنا لیتے ہیں جبکہ سیاسی قیادت ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے سازش ڈھونڈتی رہتی ہے اور مسئلے کو پیچیدہ کر دیتی ہے۔

حالات اس نہج تک پہنچ گئے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے والے بھارتی جاسوس کو جب پکڑا جاتا ہے تو سیاسی قیادت اس کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتی۔ معصوم پاکستانیوں کے قاتل اس بھارتی جاسوس کا مقدمہ جب عالمی عدالت انصاف میں جاتا ہے تو بھارتی وکیل اس جاسوس کے دفاع میں پاکستان کے وزیراعظم کا بیان بطور ثبوت پیش کرتا ہے۔ ذہنی خلل کی شکار اس سیاسی قیادت نے ریاست کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ ریاست کے ہر ادارے میں اعتماد کی کمی اور کارکردگی کا گرتا معیار عیاں تھا۔

گزشتہ ایک برس کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ اگر سیاسی قیادت خود اعتماد ہو، اسے بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا نہ ہو اور ملکی مفاد عزیز ہو تو اس کا مثبت اثر ہر جگہ نظر آتا ہے۔ پاکستان ایک فعال اور خود اعتماد ریاست نظر آرہی ہے۔ ایف بی آر، نیب، عدلیہ ، فوج غرض کہ ہر ادارے میں نئی خود اعتمادی عیاں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان ایک ایسے شخص کی طرح لگ رہا ہے جسے زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا ہو اور اب وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتا ہو۔

یہ مظاہرہ ہم نے ستائیس فروری کو دیکھا جب دشمن کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔ دنیا کو بتا دیا گیا کہ یہ نیا پاکستان ہے، یہاں کے حکمرانوں کو ملک کا مفاد عزیر ہے نہ کہ اپنے بچوں کے کاروبار۔ نہ حکمرانوں کو لندن میں اپنی جائیدادوں کی فکر ہے نہ انھوں نے جمہوریت کے نام پر سوئس بینکوں میں اپنے اکاونٹ بھرنے ہیں۔ اب جب بھی اس ملک کی جانب کوئی انگلی اٹھائے گا تو سیاسی قیادت اور ریاست پاکستان ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر جواب دے گی۔

اب عالمی عدالت انصاف میں ہمارے قائدین کے بیانات ہمارے خلاف بطور ثبوت پیش نہیں ہونگے۔ اب اگر کھیل کے میدان میں دشمن ایک جہاز اڑا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کر ے گا تو دو جہاز اڑا کر اس کا اصلی چہرہ دنیا کو دکھایا جائے گا۔

اب اپنے اداروں کی تذلیل برداشت نہیں کی جائے گی، اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا مجال ہے چیئرمین نیب کی کہ میرے خلاف مقدمہ بنائے، اب اس ملک کو لوٹنے والوں کو حساب دینا ہوگا۔ قومی ایئرلائن کے ذریعے منشیات سمگلنگ کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب ہر ادارہ اپنا کام کرنے میں آزاد ہے۔ ججوں، جرنیلوں، سیاستدانوں، صحافیوں سب کا احتساب ہو گا۔ کسی کو جمہوریت، ملکی مفاد، آزادی رائے کے پیچھے چھپنے نہیں دیا جائے گا۔

ٹاپ اسٹوریز