کرشماتی عمران خان

خبر ہونے تک

عمران خان کا کرشمہ برقرا ر ہے، دورہ امریکہ نے ثابت کر دیا کہ یہ کرشمہ صرف کیپیٹل ون ارینامیں ہی نظر نہیں آیا بلکہ وہائٹ ہاؤس میں بھی اس کی جھلک نظر آئی۔ صدر ٹرمپ اور خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ کی جانب سے عمران خان کا استقبال اورصدر ٹرمپ کی ان کے ساتھ میڈیا گفتگو میں بےتکلفی بھی ثابت کر رہی تھی کہ وہائٹ ہاؤس نے پاکستانی وزیراعظم کو غیر معمولی حیثیت دی ہے اور یقینا اس کرشمہ کے اثرات پاک امریکہ تعلقات پر مثبت انداز میں پڑیں گے۔

ضرورت اسی جذبہ اور لگن کی ہے جس جذبے اور لگن کے ساتھ کیپیٹل ون ارینا کا جلسہ سجایا گیا اور جس دانشمندی اور منصوبہ بندی کے ساتھ وہائٹ ہاؤس کا دورہ کیا گیا، اشارے بہت واضح ہیں اور وہ پاکستان اور امریکہ کے ازسرنو مثبت اور بہتر تعلقات کی بنیاد بن سکتے ہیں یعنی عمران خان کا کرشمہ پاکستانی ریاست کے حق میں موثر بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پاکستانی امریکن بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے میزبان اعظم اور آئل بزنس ٹائیکون جاوید انور کی کوششوں سے جس طرح یہ کرزماتی دورہ کامیاب ہوا اسی طرح اور ان جیسی دیگر شخصیات متحرک ہو کر اسے مزید مفید بنا سکتی ہیں۔

عمران خان کے دورۂ امریکہ کی دو واضح کامیابیاں نظر آتی ہیں، ایک یہ کہ پہلی مرتبہ حکومت کے سربراہ نے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق جوڑا، اس سے امریکہ میں موجود عشروں سے رہائش پذیر پاکستانیوں کے حوصلے بڑھے اور وہ جو اب تک امریکی سیاست اور حکومت کے معاملے میں الگ تھلگ نظر آتے تھے اب امریکہ کی مین اسٹریم  سیاست کا حصہ بننے کی کوشش کریں گے، دوسرے عالمی اور خاص طور سے خطے کی سیاست اور تعلقات کے امور کی آواز وہائٹ ہاؤس کے دروبام سے نکلی ہے، وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کی زبان سے مسئلہ کشمیر کا ذکر ہی ایک بڑی کامیابی ہے، اسی طرح افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کوسراہا جانا بھی تقویت پہنچاتا ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے کو زیر بحث لانے کا اقرار بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن بات وہی ہے جو اوپر تحریر کی گئی ہے کہ اس سب باتوں کا رخ ایک مثبت اور تعمیری عمل کی جانب موڑنا ضروری ہے۔

سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار حسب روایت دو حصوں میں تقسیم ہیں، ایک وہ جو اس دورے کو تاریخ کا سب سے کامیاب دورہ قرار دینے لیے زمین و آسمان ایک کر رہے ہیں دوسرے وہ جو اسے معمول کا دورہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دونوں جانب دلائل سے زیادہ خواہشات اورطرفداری کا عنصر نظر آتا ہے۔ یہ سوچ کوئی نئی نہیں ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے لیکن صورتحال کو نئے زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

خطے کی بدلتی صورتحال میں پاکستان کی حیثیت اور اہمیت کے تناظر میں بھی اس دورے کو دیکھنا چاہیے، وزیر اعظم عمران خان کی کرزماتی شخصیت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بدن بولی کا پوسٹ مارٹم کرنے کی بھی ضرورت ہے، پاکستان اپنے خطے میں جغرافیائی اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی نازک تعلقات میں بھی بندھا ہوا ہے۔ اس کی سرحدوں کے ساتھ تین ممالک ایران، افغانستان اور چین سے امریکہ کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، چوتھا ملک بھارت ہے جو امریکہ کا حلیف کہلاتا ہے اس کے برعکس ایران، افغانستان اور چین سے پاکستان کے تعلقات اچھے کہے جا سکتے ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے۔

خطے میں جو پاکستان کا دوست ہے وہ امریکہ کا مخالف ہے اور پاکستان کا مخالف امریکہ کا دوست ہے، یوں پاکستان ایک ایسی صوتحال سے دوچار ہے جہاں اسے پھونک پھونک کے قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ افغان جنگ اور طالبان مسئلہ کے بعد سی پیک منصوبے نے بھی پاکستان کی صورتحال کو بہت زیادہ حسّاس بنا دیا ہے۔ ملک کے اندر دہشت گردی، کرپشن، فرقہ واریت، شکیل آفریدی کیس اور ڈاکٹرعافیہ صدیقی کا معاملہ بھی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے نہیں دیتا۔ اس سب صورتحال میں تعلقات کا محور امریکہ بنتا ہے جس کے اپنے مفادادت ہیں ان میں پاکستان کوبڑی دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ اس صورتحال میں ایک واضح حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے، پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اس دورے میں ساتھ ہونا بہت زیادہ اہم ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت ایک پیج پر ہے یعنی دورے میں جو کچھ طے ہو گا اسے عسکری اور سول قیادت دونوں کی حمایت حاصل ہو گی اور دونوں مل کر طے پانے والے امور پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔

عمران خان کے اس دورے کو خطے کے ممالک کس نظر سے دیکھیں گے، یہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت کا ردعمل سامنے آ چکا ہے وہ یقینا ایک بڑی مہم شروع کرے گا جس ایک طرف صدر ٹرمپ کے بیان کو جھٹلائے گا اور دوسری طرف پاکستان کو بھی ہدف بنائے گا۔ چین بھی اس دورے کو سی پیک کے پس منظر میں خاص زاویے سے دیکھے گا، یہ وقت پاکستان کے وزارت خارجہ اور خارجی تعلقات کے پالیسی سازوں کے بہت اہم ہے کہ وہ اس دورے کے ظاہر ہونے والے اثرات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

اسی طرح پاکستانی امریکنوں کو اب ایک قدم آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے پاکستان امریکہ تعلقات میں عام پاکستانی امریکن پہلی مرتبہ متحرک ہوئے ہیں، ان کی یہ تحریک اور عمران خان کا کرشمہ مل کر دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط بنا سکتے ہیں۔ امریکہ بھارت تعلقات مضبوط بنانے میں بھارتی امریکنوں کا بڑا کردار ہے، اب یہ کردار پاکستانیوں کو بھی نبھانے کی ضرورت ہے، پاکستانی امریکنوں نے ہر پاکستانی حکمران کی مدد کی ہے، اب انھیں یہ مدد حکمرانوں کے بجائے ملک یعنی ریا ست کی کرنی ہے اس کے لیے انھیں امریکہ کی مین اسٹریم سیاست میں آنا ہو گا۔

ٹاپ اسٹوریز