کھلاڑی بڑا سیاستدان نکلا

سیاست عمران خان کے بس کا کام نہیں ہے، سیاست اور کرکٹ میں بہت فرق ہے، اس کھلاڑی کو سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے۔۔۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم گزشتہ کافی عرصے سے وزیراعظم کے مخالفین سے سنتے آئے ہیں۔

2013 کے انتخابات کے بعد سے خان صاحب کے تمام سیاسی مخالفین کا یہی بیانیہ رہا کہ روایتی سیاست کے داؤپیچ سے نابلد عمران خان کبھی سیاست میں کامیاب نہیں ہو گا، زمین و آسمان ایک ہو جائے گا لیکن وہ کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتا۔

لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران کی بحیثیت سیاستدان کارکردگی کھیل کے میدان میں ان کی کارکردگی سے اگر بہتر نہیں تو بری بھی نہیں۔

اگر ہم گزشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کی سیاست خان صاحب کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ وہ نہ صرف سیاسی بیانیہ کنٹرول کرتے آئے ہیں بلکہ وہ جس سمت چاہتے اس بیانیے کو موڑ دیتے ہیں۔ جب وہ چاہتے ہیں سیاست پارلیمنٹ کا رخ کر لیتی ہے جب ان کا موڈ بنا وہ سیاست سڑکوں پر لے آئے۔

خان صاحب نے حالیہ دورہ امریکہ میں ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل واشنگٹن میں کیا جانے والا جلسہ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی تھی۔ جلسے سے امریکی اسٹبلشمنٹ کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں انہیں جو پذیرائی ملی اس میں بھی اس جلسے کا بڑا کردار تھا۔

عمران خان کے کامیاب امریکی دورے نے پاکستان کی حزب مخالف کی جماعتوں کے “سلیکٹڈ” والے بیانیے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ واشنگٹن کا جلسہ دراصل مریم نواز اور بلاول بھٹو کے اس بیانیے کی غائبانہ نمازہ جنازہ تھی جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھرپور شرکت کی۔

عمران کی خوش قسمتی اور ان کے سیاسی مخالفین کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ آج بھی اسے” کھلاڑی اور عقل سے عاری “ کہہ کر پکار رہے ہیں ۔ اور یہی ان کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اگرچہ کچھ نام نہاد لبرلز اور صحافت کے ناکارہ کارتوس خان صاحب پر مختلف اعتراضات کرتے رہتے ہیں لیکن ان اعتراضات کی اصلیت “ آٹا گوندتے ہوئے ہلتی کیوں ہو” والے اعتراض سے چنداں مختلف نہیں۔

گزشتہ تقریباً ایک برس کے اقتدار کے دوران خان صاحب نے ثابت کیا کہ وہ ایک بہترین قائد اور سیاستدان ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی ہو یا بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقاتیں، خان صاحب نے پاکستان کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا اور ایک “سٹیٹس مین” کے طور پر سامنے آئے۔

خان صاحب کی ایک خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین میں بے نظیر بھٹو جیسی کوئی دانا اور قد آور سیاسی شخصیت موجود نہیں ہے، بلکہ ان کے خلاف “تحریک” کی قیادت ایک ایسی شخصیت کر رہی ہے جس نے خان صاحب کو اقتدار میں لانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور اپنے والد کو وزیراعظم ہاؤس سے نکلوا کر جیل تک پہنچایا۔

ابھی عوام کے منہ سے پاناما فیصلے کے بعد بانٹی گئی مٹھائیوں کی مٹھاس نہیں گئی تھی کہ ٹوئٹر پر “انقلابیوں”کی قیادت کرنے والی محترمہ اپنے ہی والد کی حکومت کے خلاف ورلڈ بینک کی رپورٹ کو عمران خان کی نالائقی کے ثبوت کے طور پر سامنے لے آئیں۔۔

حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے حکومت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کر دیا گیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ کرپشن کا پیسہ بچاؤ اتحاد کے حکومت مخالف بیانیے اور اس تحریک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں مل رہی۔

ٹاپ اسٹوریز