معاشی جنگ اور پاکستان

خبر ہونے تک

پاکستان اور امریکہ جس معاشی اتحاد کی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں وہ وقت کا تقاضہ ہے. آنے والا  وقت معاشی برتری کا ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورۂ امریکہ اس کی پہلی کڑی ہے، ’جنگ نہیں امن‘ کے تاریخی جملے اور فلسفہ کی جانب پیش قدمی ضروری ہے، افغانستان سمیت عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی اور ایران سمیت شمالی کوریا سے مفاہمت کی باتیں سینکڑوں ارب ڈالرز کی بچت کے اقدامات ہیں۔

چین اس صورت حال کا صحیح ادراک کر کے پہلے ہی اس جانب آگے بڑھ چکا ہے۔ چین جس رفتار سے معاشی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے، امریکہ کو یقینا احساس ہو گا کہ اگر وہ اس میدان میں پیچھے رہ گیا تو کوئی دن جاتا ہے دنیا کا نیا حکمراں چین ہوگا، یورپ، روس، مشرقی وسطیٰ اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک پہلے ہی اپنی سمت معاشی میدان کی جانب موڑ چکے ہیں۔ لگتا ہے اب امریکہ بھی اس جانب پیش قدمی کے لیے تیار ہو چکا ہے اس کے لیے سب سے پہلے اسے دنیا بھرمیں مسلط کی گئی جنگوں سے باہر نکلنا ہو گا۔

وزیراعظم عمران خان کے دورہ کے دوران امریکہ کی سوچ واضح طور پر سامنے آ چکی ہے۔ جنگوں سے باہر نکل کر وہ سینکڑوں ارب ڈالرز کی بچت کرے گا جنہیں وہ اپنی معاشی ترقی پر خرچ کر کے وہ دنیا کی واحد سپر پاور کا درجہ برقرار رکھ سکتا ہے اور ساتھ ہی امریکہ پر پڑنے والے معاشی دباؤ سے بھی نمٹ سکتا ہے۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس سب کے لیے اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔

عالمی صورتحال اور ممالک کی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے، اس نئی صورتحال میں پاکستان ایک مرتبہ پھر نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ اور خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بدلا ہوا رویہ نئی صورتحال کا بھرپور عکاس ہے۔

دنیا کی تاریخ جنگ وجدل سے بھری پڑی ہے، ہزاروں سال پر محیط دستیاب تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت سب سے بڑی معیشت جنگ ہی ہوا کرتی تھی، ایک طرف حکمران مختلف علاقوں سے لوگ بھرتی کر کے فوج تیار کرتے تھے جس سے لوگوں کو روزگار ملتا تھا اور پھر اسی فوج کو لے کر دوسرے ملکوں پر حملے کرتے تھے اور وہاں کی دولت لوٹ کر اپنے ملکوں میں لاتے تھے۔ یہ سلسلہ لاٹھیوں، تلواروں کی جنگ سے لے کر آج گولا بارود اور ایٹم بم کی جنگ تک جاری رہا ہے۔

گزشتہ صدی نے دو بڑی عالمی جنگیں دیکھیں ہیں جن میں کروڑوں لوگ مارے گئے اورکئی ممالک تباہ ہو گئے، ویت نام کوریا کی جنگ سے لے کر عراق اور افغانستان کی جنگ تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے جہاں اربوں ڈالرز خرچ کر کے ہزاروں لوگ مار دیے گئے اور اب بھی مارے جا رہے ہیں، لاکھوں بے گھر ہو رہے ہیں، وسیع علاقے تباہ ہو رہے ہیں، پہلے اس کا ادراک چین نے کیا اور جنگ نہیں کرنی کا نعرہ لگا کر انسانی ضرورتوں کی صنعتوں کو فروغ دیا، یورپی ممالک نے گو کہ دوسر جنگ عظیم کے بعد اپنی بگڑتی معاشی صورتحال کے باعث جنگوں سے دور ہونا شروع کردیا تھا لیکن امریکہ اور روس کئی پراکسی اور کہیں براہ راست جنگوں میں ملوث رہے۔

اس وقت امریکہ شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے، بعض اہل دانش یہاں تک کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی عہدے پر کامیابی بھی اس نئی صورتحال کے سبب ہوئی ہے۔ وہ ایک کاروباری شخص ہے وہ جنگ سے زیادہ کاروبار پر توجہ دے گا اورایسا ہی ہورہا ہے۔ ٹرمپ امریکہ کو اس دباؤ سے نکالنا چاہتا ہے اور اس لیے اسے پاکستان کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے کشمیر اور ڈاکٹر عافیہ کا ذکر بھی کھل کر کیا۔

وزیراعظم پاکستان کے دورۂ امریکہ کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان پر امریکہ کے جو اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اس سے نجات حاصل کرنا اس کی اوّلین ترجیح ہے، اسی طرح عراق سے نکلنے کے ساتھ ساتھ ایران سے تعلقات میں بہتری بھی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کے ناتے ایران اورعراق کے حوالے سے بھی موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ تو براہ راست پاکستان سے جڑا ہے لہٰذا یہ مسئلہ تو پاکستان کے بغیر حل ہو نا ممکن ہی نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے بعد امریکہ کی جانب سے اس جانب پیش رفت شروع کی جا چکی ہیں، افغان طالبان سے مذاکرات کا عندیہ اور ایران کا معاملہ بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی باتیں، وزیراعظم پاکستان کے دورے کا فالواپ ہیں، پاکستان کی جانب سے افغان شہریوں کے لیے ویزوں کی سہولت میں اضافہ، طورخم سرحد کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ بھی ایسے اقدامات ہیں جن سے افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجوں کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔

اسی طرح کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کے پیچھے بھی یہی معاشی حکمت عملی پوشیدہ ہے، اس سے بھارت کو بھی امریکہ کی طرح براہ راست اربوں ڈالرز کی بچت ہو گی جو وہ مقبوضہ کشمیر میں متعین اپنی آٹھ لاکھ فوج پر خرچ کر رہا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے باعث جب حالات میں بہتری نمایاں ہو گی تو ڈاکٹرعافیہ کا معاملہ بھی حل ہونے کی طرف جائے گا۔

پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات میں امریکہ اور پاکستان کی نئی مفاہمت شاید کسی مشکلات سے دوچار ہو لیکن پاکستانی امریکن اس سلسلے میں بڑا اور موثر کردار ادا کرسکتے ہیں جاوید انور اور طاہر جاوید جیسی شخصیات جنھوں نے واشنگٹن میں پاکستانیوں کا جلسہ کر کے پاکستان کی ساکھ اور وزیراعظم عمران خان کا وقار بلند کیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ وہ امریکی انتظامیہ کا موثر حصہ بھی ہیں۔ ان کی دوہری حیثیت ہے وہ پاکستانی بھی ہیں اور امریکن بھی،اسی حیثیت سے وہ اپنے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور انھیں مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز