کنارِ بحر گیلان

آوازہ

کنارِ بحر گیلان

ابھی ایک دوست نے پوچھا، سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر کیا کہتے ہو؟سوال مشکل تھا، میں سوچ میں پڑ گیا اور خیال کا یہ دھارا بجائے اس کے کہ مجھے شاہراہِ دستور کی طرف لے جاتا، کیسپیئن کنارے پہنچا گیا جس کے پہلو میں باکو آباد ہے۔ ہوٹل میں شب جیسے تیسے گزار لی تو خیال آیا کہ کچھ ٹانگیں بھی کھولنی چاہئیں۔ ہم سفروں کو ساتھ لیا اور اللہ کے آسرے پر نکل کھڑے ہوئے۔

ملی پارک، ہوٹل فورسیزنز اور چند بلند و بالا عمارتیں ایک ایسی تکون بناتی ہیں جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ جگہ یاد رکھ جانے کے قابل ہے۔۔۔ شاید عمر بھر۔ ہم اس ایونیو کے سحر سے بمشکل نکلے اور انڈروے میں جا گھسے۔ ہمیں کراچی لاہور وغیرہ کے زیرزمین راستوں کی عادت تھی جن میں داخل ہوتے ہوئے آیت الکرسی پڑھ کر اپنے سراپے پر دم کرنے کی عادت سی ہو چکی تھی مگر یہ تجربہ مختلف تھا۔

یہ انڈروے نسبتاً طویل اور بل کھاتا ہوا ہے جس میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں نیز برقی سیڑھیاں (Escalator) لگی ہیں۔ اس شہر کے لوگ، خاص طور ورکنگ کلاس ناشتہ واشتہ کر کے، موٹے کپڑے پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اورتیز ہوا میں اڑتے ہوئے بالوں کو سنبھالتے ہوئے ناک کی سیدھ اپنے راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں۔ راہ میں شاہراہ آئے، سیڑھیاں آئیں یا زیرزمین راستے، وہ صراطِ مستقیم چلتے چلے جاتے ہیں۔

اپنے راستے پر اس محویت کے عالم میں بھاگے چلے جانے کے ایسے دل فریب مناظر آنے والے باکو کے سفر میں ہم نے باربار دیکھے لیکن وہ چوں کہ پہلا دن تھا اس لیے ہم یہ مناظر دیکھ کر مبہوت سے رہ گئے۔ گزرگاہ میں نیچے اترتے ہوئے ہم ابھی درمیان میں ہی پہنچے تھے کہ طاہر سے رہا نہ گیا، بے تابانہ کہا کہ یہ ہوتا ہے ارتکازِ، ایسی ہوتی ہے فوکسڈ قوم۔ راست فکر، راست رو آذربائی جانیوں کی خوبیوں کی داد دیتے ہوئے ہم برسرِ زمین ابھرے تو ایک بار پھر ششدر رہ گئے۔ سامنے سمندر تھا، کیسپیئن جسے ہماری زبان میں کہا جاتا ہے، بحرِ گیلان، اس نام کا ذہن میں آنا تھا کہ ساری تھکن اتر گئی، گیلان یا گیلانی ہر دو نام ہمارے اپنے ہیں۔ پاکستان کے ہزار پانچ سو شہریوں میں دو تین تو گیلانی ہوتے ہی ہوں گے۔

بحرِ گیلان کے لشکارے مارتے ہوئے دودھیا سبز پانی پر ہماری نگاہ تو دور سے ہی پڑ گئی تھی لیکن جس راستے پر چلتے ہوئے ہم ان پانیوں تک پہنچے اور کنارِ آب چہل قدمی فرمائی، اُس کی کوئی مثال مجھے دنیا کسی ایسے خطے میں تو دکھائی نہیں دیتی جہاں جہاں اس مسافر کے قدم پہنچ پائے ہیں۔ سمندر کے ساتھ میلوں طویل ایک ایسی خوش نما گزر گاہ بنا دی گئی ہے جس کے ایک جانب سرو اور کچھ دوسرے طویل قامت درخت لگائے گئے ہیں جنھیں رات بھر بے دردی سے پڑنے والے کہرے سے بچانے کے لیے تھیلے چڑھا دیے جاتے ہیں۔

بیلے دی اے (میونسپلٹی) کے ملازمین صبح دم ان تھیلوں کو اس پیار سے اتارتے ہیں گویا لحاف میں بے خبری سے سوئے ہوئے بچوں کو جگایا جائے۔ دوسری طرف سیڑھیاں پانی میں اترتی جاتی ہیں۔ بس، کچھ خواب جیسا ماحول ہے۔ جتنے دن یہ مسافر اس شہر میں ٹھہرا، یوں سمجھ لیجئے کہ صبح کی سیر اور خواب کچھ ایسے گھل مل سے گئے کہ سمجھ میں نہیں آتا۔

ہر صبح یہاں آنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ ہم ملی پارک کی پھولوں سے لدی پھندی راہداریوں سے جھومتے جھامتے سمندر کنارے پہنچتے اورسیکڑوں فوکسڈ آذربائیجانیوں سے قدم سے قدم ملاتے چہل قدمی میں شریک ہو جاتے۔ ایک روز ہمارے جی میں جانے کیا سمائی کہ سیڑھیاں اترتے ہوئے پانی کے قریب جا پہنچے جہاں ایک بڑھیا نہ دکھائی دینے والے کوڑے کرکٹ کی صفائی پر مامور تھی، ہمیں دیکھتے ہوئے اس نے اپنے پوپلے سے منہ کو ہلاتے ہوئے کچھ کہا۔ بعد میں مایا نے بتایا کہ اس نے سلام لمک کہا ہو گا، یعنی خوش آمدید۔

سلام لمک کی گرم جوشی اور بحرِ گیلان کی یخ بختگی سے شرابور ہم واپس پلٹے تو اپنے دیس کے ایک وفاقی وزیر بھی اس نکھرے راستے پر شاداں و فرحاں مٹر گشت کرتے دکھائی دیے۔ مسافرت میں اکثر ہوتا ہے کہ پروٹوکول کا کلف اتر جاتا ہے اور اندر سے بادام کی گٹھلی کی طرح نرم و نازک خوش گوار سی جلد نکل آتی ہے، ہمارے اس راہنما کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ تھوڑی دیر میں بے تکلفی ہوگئی۔

دھرنا ختم ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے، عرض کیا کہ دھرنے کے بعد اب آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ستیاناس ہو گیا، ہر چیز کا ستیاناس ہوگیا۔ مثلاً؟ مثلاً یہ کہ اس دھرنے نے ہماری سیاست کا بھٹہ بٹھا دیا۔ تو پھر یہ بھٹہ اٹھے گا کیسے؟ سوال سن کر پہلے اِس بزرگ نے قہقہہ لگایا پھر کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی طریقوں سے منظم کیا جائے۔ کارکن گلی محلے سے اٹھے۔ گلی محلے میں تنظیم بنے اور تربیت کے ان مراکز سے تربیت لے کر کارکن اٹھے اور ترقی کے زینے طے کرتا ہوا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے۔

تو پھر اس میں رکاوٹ کیا ہے؟

اس مہربان نے ایک قہقہہ مزید لگایا اور کہا کہ خود میں۔

وہ کیسے؟

وہ ایسے کہ اگر میں نے خود ہی ایسی تنظیمیں بننے دیں، نچلی سطح سے اٹھ کر کارکن اوپر جانے لگے تو میری اور میرے خاندان اہمیت تو رفتہ رفتہ ختم ہوتی جائے گی۔

کیسپیئن کنارے ہونے والے اس مکالمے نے پاکستانی مسافر کی آنکھیں کھول دیں۔ اپنے دیس کے دکھوں کے سارے اسباب سمجھ میں آگئے، ساتھ ہی یہ سمجھ میں بھی آ گیا کہ اپنے دیس میں بڑھتے ہوئے لوٹوں کا علاج کیا ہے۔ تو اے! اہلِ ایمان بات یہ ہے کہ اپنے دیس میں اگر اصلی سیاست کے پھلنے پھولنے کی آرزو ہے تو پھر اصل سیاست کی بنیاد رکھنی بھی ناگزیر ہے ورنہ مفادات کی بنیاد پر مناصب سے سرفراز ہونے والے مفادات کے سامنے ڈھیر ہوتے رہیں گے، اس ملک اور اس کے ملک کے ایوانوں کا کوئی منظر بدل پائے گا اور نہ ہی ہمارے جنت نظیر ملک کے کوچہ و بازار ایسی تصویر بن پائیں گے جنھیں دیکھ کر باکو کے مسافروں کی طرح دیکھنے والے مبہوت رہ جائیں اور ذرا سی کوئی یاد آ جائے تو سند باد جہازی کی طرح قصے کہانیاں کرنے بیٹھ جائیں۔

سینیٹ کے ذکر سے باکو کی یاد تازہ ہوئی اور اُس دیس سے ہمیں اپنے دیس کا راستہ ملا، سینیٹ کی کہانی میں اگر کچھ جان باقی رہ گئی تو آئندہ کبھی۔

ٹاپ اسٹوریز