پلاسٹک میں الجھا سیارہ

پلاسٹک میں الجھا سیارہ

شاپر اس سیارے کو نگل جائے گا

یہ زمین گول ہے

بہت وسیع ہے

ہزاروں جنگجو اور فاتح آئے اسے فتح کرنے۔ مر کھپ گئے۔

یہ وہیں کی وہیں موجود

لیکن اب نہیں رہے گی۔

یہ زمین ایک شاپر کی مار ہے۔

جنگجواور فاتح تو اس کو ختم نہ کر پائے لیکن انسان کے ہاتھ کی بنائی بلا ” شاپر ”  اور ’’پلاسٹک ” اسکی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے۔ ایک دن آئے گا کہ جب پوری دنیا فنا ہو جائے گی۔ اور سب کے منہ پر یہ شاپر غلاف کی صورت چڑھا ہو گا۔ پھر شائد کسی اور سیارے کی مخلوق آ کر اسے ختم کر پائے۔

انسان نے ایسی چیز تخلیق کر ڈالی جو ہزاروں سال زندہ رہے گی، اس کو زمین میں دبا دو، سمندر میں غرق کر دو، دریا برد کر دو ، کہیں نہیں جائے گی یہ بلا ۔۔ ہمیں ختم کر کے ہی ختم ہو گی۔ بلکہ ہمیں مسلسل ختم کر رہی ہے۔

لفظ پلاسٹک “پلاسٹیسٹی” سے نکلا ہے۔ یہ ہر طرح ہر زاویے پر موڑا، پھیللایا یا چموڑا و نچوڑا جا سکتا ہے لیکن تحلیل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اپر یا پولی تھین بیگ non-biodegradeable ہے یعنی اس کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا یہ جل تو سکتا ہے لیکن ری سائیکل نہیں ہو سکتا۔

عام طور پر لوگ اسے جلانے کو ریسائیکلنگ سمجھتے ہیں۔ اور اکثر شہروں میں کچروں کو جلایا جا رہا ہوتا ہے جس میں پولی تھین بیگ بھی ہوتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ پولی تھین جلنے سے فضا میں جو کیمیکلز اور دھواں پیدا ہو رہا ہے وہ ماحول کے لئے کتنا خطرناک ہے۔

ہمیں پلاسٹک کے لفافوں اور شاپرز کی ایک نشے کی طرح لت پڑ چکی ہے۔ جب تک سبزی والا دو تین شاپرز میں سبزی ڈال کر نہیں دے گا ہمیں چین نہیں آئے گا۔ ایک وقت کی سبزی لیتے وقت دکاندار مفت میں کم از کم چار سے پانچ شاپرز دیتا ہے، کسی میں ہری مرچیں کسی میں ہرا دھنیا تو کسی میں گوبھی اور ہم اسی نشے میں مخمور وہ تھیلیاں اٹھائے لئے آتے ہیں کہ ان کے کونسے پیسے دینے پڑے۔ اسی مفتے کے چکر میں کتنی بیماریاں گھر لے آئے یہ نہیں جانتے۔

تندور سے گرما گرم روٹی دو شاپروں میں لپیٹ کر دی جاتی ہے۔ دودھ بھی شاپر میں ڈال کر ہی دیا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس گرم روٹی اور دودھ کے پلاسٹک میں رہنے کی وجہ سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔ اگر جانتے ہوتے تو اپنے والدین کی طرح دودھ لینے کے لئے برتن اور روٹی کے لیے کپڑے کا بیگ استعمال کرتے۔

ہماری خوراک اور پلاسٹک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ایک انوکھا رشتہ ہے جس کو مہلک سے مہلک بیماری بھی ٹوٹنے نہیں دیتی۔ یہ ایک ایسا الوہی رشتہ ہے کہ ہم بنا جانے بوجھے نبھائے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہونٹوں اور پیپسی کے بیچ پلاسٹک کا ایک اسٹرا ہی تو ہے۔ کیسا رومانی رشتہ ہے یہ، ایسا اٹوٹ بندھن کہ جان لے کر ہی چھوڑتا ہے اورہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔

ہمارے برگر سے زبان کے چٹخارے تک صرف ایک پلا سٹک کی پلیٹ تک سفر ہے۔ اور یہ سفر ہمیں کشاں کشاں پراسٹیسٹ کینسر، ہیپا ٹائٹس، السر، ایستھما، موٹاپا، اور دیگر مہلک امراض سے روشناس کرا دیتا ہے۔ اور تو اور پانی جس کا دوسرا نام زندگی ہے بھی پلاسٹک کا ڈھکن اتار کر پلاسٹک کی بوتل کو منہ لگا کر پینا کیسا ایڈونچر ہے۔

عالمی اعداد و شمار کے مطابق سمندروں کی تہہ میں 5۔5 ٹریلین پلاسٹک کے ٹکڑے جمع ہو چکے ہیں۔ تقریبا تیرہ ملین ٹن پلا سٹک ہر سال سمندوں میں جاتا ہے۔ بحری خندق ماریانہ میں سب سے گہرائی پر جو چیز پائی گئی ہے وہ پلاسٹک ہے۔ یہ 11000 میٹر کی گہرائی میں بھی ملتا ہے۔ اور وہاں پلاسٹک کے تقریبا چھ براعظم تعمیر ہو چکے ہیں۔

دنیا میں جتنے بھی پولیتھین بیگ پیدا کئے جاتے ہیں ان کا اسی فیصد ری سائیکل نہیں ہوتا ۔ پلاسٹک پترولیم سے بنتا ہے۔ دس فیصد پٹرولیم پلاسٹک بنانے کے کام آتا ہے۔ صرف امریکہ کی ہی بات کریں تو بارہ ملین بیرل آئل ہر سال پلاسٹک بیگ بنانے پر صرف ہوتا ہے۔ سمندری حیات بڑے پیمانے پر پلاسٹک سے متاثر ہو رہی ہیں ۔ مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔ کچھ ان میں پھنس کر بھی مر جاتے ہیں۔ پلاسٹک کی وجہ سے ایک لاکھ جانور ہر سال مرتے ہیں۔

وزیر تبدیلی ماحولیات (کلائمیٹ چینج) زرتاج گل صاحبہ نے اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد میں 14 اگست سے سنگل یوز پلاسٹک بیگ ، شاپر کے استعمال اور بنانے پر مکمل پابندی لگائی جا رہی ہے۔ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو پچاس پزار سے پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو گا۔ اس سلسلے میں قانونی تقاضے بھی پورے کر لئے گئے ہیں۔

یہ اقدام یقینا بہت خوش آئند ہے کہ اس بارے میں فیصلہ تو کیا گیا اور انسانیت کی بقا کے لئے یہ اہم اور بڑے کام کا آغاز ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں آگہی مہم کا دائرہ کار وسیع کرنے کے اقدامات ہوں گے۔ متبادل متعارف کرانا اور وسیع پیمانے پر عوام میں آگہی مہم چلانا انتہائی ضروری ہے۔

ٹاپ اسٹوریز