جمہوری واویلا

فکر نو

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی، بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں، اے این پی۔۔۔۔ اور نہ جانے کون کون اکٹھا تھا۔۔۔ نمبر گیم میں بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا، ان کے اپنے دعوی کے مطابق سیلیکٹڈ ہونے کی تہمت سے بھی دامن پاک تھا، الیکٹڈ ہونے کا تمغہ بھی جمہوری کلغی میں سجا ہوا تھا۔۔۔ عوامی حمایت بھی صرف انہیں میسر تھی۔۔

قابلیت شک و شبہے سے بالاتر تھی، نیت کھوٹ سے پاک تھی، خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔۔ جے یو آئی کی صورت میں علما کا نالہ نیم شب بھی میسر تھا۔۔۔ للکار میں تھرتھراہٹ نہیں تھی، یلغار میں کپکپاہٹ بھی نہیں تھی، انداز غضب ڈھا رہا تھا، رفتار قیامت خیز تھی اور اطوار فاتحانہ تھے۔۔۔

اس سب کے باوجود ایک بار پھر کسی نے ان کی آنکھ سے سرمہ چرا لیا اور جمہوری خودفریبی میں مست سسی تک شہر بھنبھور کے لٹنے کی خبر بہت دیر سے پہنچی جس کے بعد سیاسی نوحہ خوانی کا وہ سماں برپا ہوا کہ الامان والحفیظ۔۔۔ اس تمام تر داستان شکست میں ایک بڑا سبق پوشیدہ ہے لیکن اسے سمجھنے کے لیے دو مختصر واقعات پر غور کرنا ضروری ہے۔

ہماری ایک نسل سوویت یونین کی تباہی کے ستونوں پر مسلم امہ کی عظمت کی عمارت استوار کرنے کے خواب دیکھتی رہی۔  سرخ ریچھ کے ٹکڑے ہوئے اور وہ بکھر کر تاریخ کی گرد میں کہیں کھو گیا لیکن دیوار برلن کے چند بے جان ٹکڑوں، اغیار کے خندہ استہزاء اور باہمی جنگ و جدل کے سوا ہمارے ہاتھ اور کچھ نہ آیا۔

ہم پھر بھی مایوس نہ ہوئے، ایک اور نسل نے امت مسلمہ کے گم گشتہ جاہ و جلال کی بازیافت امریکہ کی تباہی سے مشروط کر دی۔۔۔ ہم نے ایک بار پھر سجدوں میں آہ و زاری شروع کیں اور  آسمان کو حسرت سے تکتے ہوئے لہورنگ آنسوؤں سے دامن بھر لیا۔۔ ۔۔ مگر سب مناجاتیں رائیگاں گئیں اور جس طرح روس کے ٹوٹنے سے امت مسلمہ کے بجائے امریکہ طاقتور ہو گیا تھا، اسی طرح امریکہ کے کمزور ہونے سے چین مضبوط ہو گیا۔۔۔۔ مسلمان ایک بار پھر زوال اور ادبار کی وجوہات اپنے اندر کے بجائے باہر تلاش کرنے لگے۔

ان دونوں واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی شخص، ادارے یا قوم کے کمزور ہونے سے ہماری تقدیر میں بدلاؤ نہیں آ سکتا۔۔ نصیب بدلنے کے لیے خود کو بدلنا پڑتا ہے۔

اس لیے اگر سیاستدانوں نے عوام کے دل میں جگہ بنانی ہے، سویلین بالادستی کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنا ہے اور ملک کو حقیقی ترقی سے روشناس کرانا ہے تو کسی ادارے، ملک یا شخصیت کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے اندر جھانک کر دیکھنا پڑے گا اور خود کو کوچہ ملامت میں کھڑا کر کے فرد جرم عائد کرنا پڑے گی۔ اپنی جماعت کے اندر میرٹ اور جمہوریت کو فروغ دینا ہو گا کیونکہ سیاسی جماعتیں کاروبار یا صنعت نہیں ہوتیں کہ جس نے اسے پروان چڑھایا اس کی اولاد ہی اس کی مالک ہو گی۔۔۔۔ یہ تو ایک فکر، سوچ اور نظریہ کا نام ہے جسے تازہ خون فقط صلاحیت کی بنیاد پر ملے گا تو یہ مضبوط ہوں گی ورنہ ایسی ہی شکستوں سے دوچار ہوں گی جو کئی دہائیوں سے ان کا نصیب بنی ہوئی ہیں۔

انہیں سوچنا چاہیئے کہ آخر کیوں سینیٹ میں پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے موقع پر تمامتر طنطنہ اور گھن گرج اپنی اصل میں فقط ایک گھبرائی ہوئی ممیاہٹ ثابت ہوا۔۔ جمہوریت کی ریشمی چادر میں کھوٹ کے کئی پیوند نمودار ہو گئے ۔۔ نیتوں کے چمکتے پانی کے نیچے سے دجل و فریب کا آلودہ چشمہ ابل پڑا۔۔ اور سیاسی اداکار الزام تراشی کے لیے ایک بار پھر نیا شکار تلاش کرنے نکل پڑے۔

انہیں یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیئے کہ کسی ادارے کو کمزور کرنے سے صرف انتشار کی قوتوں کو فروغ ملے گا، حقیقی جمہوریت اس وقت توانا ہو گی جب ملک کے تمام ادارے مضبوط و متحرک ہوں گے۔ حکومت اور عوام کا باہمی رابطہ صرف اداروں کے ذریعے ہوتا ہے اور انہی کی کارکردگی کے ذریعے عوام اپنے رہنماؤں کی  کارکردگی جانچتے ہیں۔

جب تک پولیس کے ادارے سے تحفظ کے بجائے تذلیل کا احساس جڑا رہے گا، پٹواری سے رشوت کی بدبو آئے گی، ٹیکس کے ادارے سے خوف کی لہریں ابھریں گی اور عدالتوں سے انصاف کی جگہ التوا نصیب ہوتا رہے گا، اس وقت تک سیاسی جماعتوں کی قسمت میں ایسی ہی سیاہی لکھی رہے گی جس کے مظاہر حالیہ ملکی تاریخ کے صفحات پر جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ کارکردگی کے سوا دیگر سب رستے سیاسی فریب کاریاں ہیں۔۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز