آتش فشاں میں چھپے امکانات

آوازہ

ہمارے ایک بزرگ تھے، مولانا ظفر احمد انصاری، قائد اعظمؒ کے قابل اعتماد ساتھی، آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور اپنے عہد میں اتحاد ملتِ اسلامیہ کے سب سے بڑے نقیب۔ حالات جب قابو سے نکل جاتے، مخالف قوت غالب آ جاتی یا کچھ ایسا ہوجاتا جس میں بظاہر خیر کا کوئی پہلو بھی نہ ہوتا تو وہ مسکرا کر فرماتے، آئیے! اس شر میں سے خیر تلاش کریں۔

کشمیر کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ آتش فشاں ایک بار پھر پھٹنے کو ہے۔ بھارت نے خط متارکہ جنگ (لائن آف کنٹرول) کو ایک بار پھر اس طرح گرم کر دیا ہے کہ لاکھوں بندگان خدا کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ امرناتھ یاترا روک دی گئی ہے۔ غیرملکیوں کو وادی سے نکالا جا رہا ہے۔ فوج کا اجتماع بڑھا دیا گیا ہے اور خوف و ہراس کے بادل اتنے گہرے ہو گئے ہیں کہ بینکوں کے سامنے اہل کشمیر کی قطاریں دکھائی دینے لگی ہیں کہ خدا جانے کس وقت کیا ہو جائے، لہٰذا کچھ پیسہ ہاتھ میں تو ہو۔ اسی طرح لوگوں نے اپنے گھروں میں کھانے پینے کی اشیا کا ذخیرہ بھی جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان سب عوامل میں ماسوائے تشویش کے کوئی اور پہلو دکھائی نہیں دیتا۔

اس قضیے کی بظاہر دو وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔ اولاً افغانستان ۔۔۔ افغانستان کے باب میں سب سے بڑی اور نمایاں پیش رفت تو وہی ہے جس کا اظہار عمران ٹرمپ ملاقات میں ہوا۔ پاکستان اور امریکہ کی قیادت کے درمیان اس ملاقات میں افغانستان کے مسئلے پر جو برف پگھلی ہے، یہ عالمی بساط سیاست کا نہایت اہم واقعہ ہے، اتنا کہ مؤرخین اگر اس کے نتیجے میں جنم لینے والی دنیا کو مابعد افغانستان (Post Afghanistan) عہد کا نام دیں تو غیر مناسب نہ ہو گا۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کو تبدیل کرنے کے اس دور کی ابتدا اسی ملاقات سے ہوئی ہے تو یہ قرین حقیقت نہ ہوگا۔

بے چین افغانستان میں قرار پیدا کرنے کی کوششوں کا یہ سلسلہ اس ملاقات سے بہت پہلے بیجنگ اور ماسکو کی کوششوں سے شروع ہو چکا تھا جس میں پاکستان کو کلید ی مقام حاصل تھا۔ اس عظیم الشان سرگرمی کا دوسرا غیرمعمولی پہلو یہ تھا کہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود بھارت اس منظر سے مکمل طور پر غائب تھا۔ گزشتہ اٹھارہ بیس برس میں افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے لیے یہ صورت حال صدمے کا باعث تھی۔ اس صدمے میں مزید شدت عمران ٹرمپ ملاقات نے پیدا کی جس میں افغانستان کے مستقبل کی صورت گری پر صلاح مشورے ہوئے، آنے والے دنوں کے لیے ایک نقشہ کار بھی تیار کرلیا گیا لیکن قابل توجہ امر یہ ہے کہ افغانستان پر اس سے پہلے اٹھائے جانے والے اقدامات کی طرح بھارت اس بار بھی بارہ پتھر باہر تھا۔

سبب اس کا جو بھی رہا ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ خطے کے سب سے اہم مسئلے سے یوں لاتعلق کر دئیے جانے کے عمل نے بھارت کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ اس طر ح اس کی برسوں کی سرمایہ کاری ڈوبتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری محض مالی نہیں جس کا ابھی تذکرہ ہوا بلکہ تزویراتی بھی ہے جس کے ذریعے بھارت پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھے ہوئے ہے۔

یہ بات تو بالکل سامنے کی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج چلی جائے اور وہاں امن بھی ہو جائے اور پرامن افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے بھارت کی جگہ پاکستان کو اہمیت حاصل ہوجائے تو مودی کے دل میں سوراخ تو ہو گا، چنانچہ اس نے اضطرابی کیفیت میں مقبوضہ کشمیر میں ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ پاکستان کی توجہ فوری طور پر اس جانب مبذول ہو گئی ہے اور افغانستان کا معاملہ بظاہر پس پشت جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی نفسیاتی کیفیات اور خطے کی سیاست کو جتنا میں سمجھ پایا ہوں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے۔

بھارت کی جانب سے کشمیر میں طوفان اٹھا دینے کا ایک اور سبب یہ ہو سکتا ہے کہ عالمی سیاست میں مقام اور سلامتی کونسل کی نشست کے حصول کی راہ میں کئی مسائل حائل ہیں لیکن ان مسائل میں کشمیر کی حیثیت کلیدی ہے۔بھارت اس مسئلے کے حل کے ضمن میں ثالثی سے جتنا چاہے انکار کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس مسئلے سے جان چھڑانے کا واحد طریقہ ثالثی ہی ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ مودی نے امریکی صدر سے اس بارے میں بات کی۔اگر مودی نے ایسا نہ کہا ہوتا تو اب تک اس کی طرف سے واضح طور پر تردید آ چکی ہوتی۔

میرا خیال ہے کہ بھارتی وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں جلد از جلد پیش رفت ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں پیدا کی جانے والی ہنگامہ خیزی کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے حالات میں امریکہ جیسی طاقت کی طرف سے کوئی کردار ادا کرنے کا راستہ اسی طرح ہموار ہوتا ہے جیسے بھارت کی طرف سے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور امریکہ نے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی لانے کی پس پردہ کوششیں کی تھیں۔

لداخ اور جموں کو بھارت کا صوبہ قرار دینے کی خبروں میں اگر کچھ صداقت ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کا ایک ایسا اسٹیج سجانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس سے ہندو اکثریتی علاقوں کو مقبوضہ کشمیرسے کاٹ کر صرف وادی کو متنازع علاقہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ان معاملات میں حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں، ان کے پیش نظر ضروری ہے کہ پاکستان چوکس رہے، داخلی عدم اطمینان کے خاتمے پر فوری توجہ دی جائے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف ہاتھ ملا کر دنیا کے سامنے قومی یک جہتی کا اعلان کریں۔

جیسا محسوس ہو رہا ہے، اگر افغانستان اور کشمیر کے مستقبل کی صورت گری کے سلسلے میں اگر پیش رفت شروع ہوتی ہے تو یہ انتہائی نازک اور پیچیدہ عمل ہوگا۔ اس تاریخی موقعے پر پاکستان جتنا پرسکون ہو گا، قومی مقاصد کے حصول میں اتنی ہی زیادہ کامیابی ممکن ہو سکے گی۔

ٹاپ اسٹوریز