کشمیر : ایک نئی ضرب

بھارت کی  ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے ریاست جموں و کشمیر کے 92 سالہ جدا گانہ تشخص پر کاری ضرب لگاتے ہوئے خطے میں کشیدگی کو نئی ہوا دے دی ہے۔

سوموار 5 اگست کی صبح بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ جو  نریندر مودی کے دستانوں کے اندر محرک ہاتھ سمجھے جاتے ہیں، نے بھارت کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں ہنگامہ خیز اعلان کر دیا کہ  صدر ہند رام ناتھ کوند نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور 35A  کے خاتمے کے حکم نامہ پر دستخط ثبت کر دئے ہیں جسکی رو سے آئین ہند اب ریاست جموں و کشمیر پر لاگو ہو گا۔

اس انتہائی اشتعال انگیز حکم کے تحت مقبوضہ ریاست کی جغرافیائی شکیل نو کرتے ہوئے اسے دو حصوں، جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے انہیں وفاق کے زیر انتطام لایا گیا ہے۔ کشمیر اور جموں کی  قانون ساز اسمبلی ہو گی جبکہ  لداخ قانون سازی کے بغیر ہی  براہ راست مرکز کے کنٹرول  میں رہے گا۔ دونوں حصوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔

بھارتی حکومت نے ایوان بالا میں مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی علاقائی جماعتوں کی حمایت سے جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن 2019  نامی اس بل کو پاس کرا لیا ہے۔ صدر کوند نے پہلے  ہی اس پر دستخط کئے ہوئے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ بھارت تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔

امیت شاہ نے اس موقع پر کہا کہ ریاست میں دہشت گردی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ ہی یہ آئینی دفعہ تھی اور حالات بہتر ہونے کے بعد  اسکا ریاستی درجہ بحال کر دیا جائے گا۔

بھارتی پارلیمان میں کانگریس سمیت کئی جماعتوں کے ارکان نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور اسے غیر آئینی اور خطرناک قرار دیا۔  کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد جو کشمیری ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، نے  اسے  آئین کے قتل سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی کشمیری ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم سے، وزیر اعلیٰ اور پھر گورنر سے لیفٹننٹ گورنر تک  گرائے گئے ہیں، نریندر مودی نے گورنر کو ایک کلرک  بنا دیا، اس طرح ایک  ممتاز ریاست کو بے وقعت کردیا گیا۔

بھارتی حکومت نے اس اقدام سے قبل ہی ممکنہ مظاہروں کے پیش نظر سخت ترین اقدامات کر دئے تھے۔ امرناتھ یاترا کو بھارتی حکومتیں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک مذہبی رسم سے کہیں زیادہ اپنے قومی وقار سے متعلق جنگی طرز کا  چلینج سمجھتی رہی ہیں، فضائیہ اور ہزار ہا نفری پر مشتمل  فورسز کے ذریعے نگرانی  سے لیکر اربوں روپے کے دیگر انتظامات کیساتھ  لاکھوں ہندؤں کی یاترا کو ہر حال میں ممکن بنایا کرتی تھیں۔ لیکن اس موقع پر یکایک انہیں لاکھوں دیگر بھارتیوں کے ساتھ کشمیر سے چلے جانے کو کہا گیا جو ہرسال  سیاحت اور محنت مزدوری کی خاطر یہاں وارد ہوتے ہیں۔

عوامی نقل و حمل اور مواصلاتی رابطوں پر پابندیاں اور تعلیمی اداروں میں چھٹی کے اعلانات اگر چہ کشمیریوں کے لئے نئے نہ تھے تاہم وہ  حیران تھے کہ حالیہ ایام میں کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ وقوع پذیر نہ ہوا اور خود بھارتی  وزیر و مشیر اور جرنیل و پولیس سربراہان یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کشمیر کے حالات میں اب بہت سدھار آ چکا ہے، پارلیمانی انتخابات کا ” کا میاب” انعقاد کرایا گیا ہے، مظاہروں، پتھراؤ یہاں تک کہ عسکریت اور “دراندازی” میں  43 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔

اس سب کے بعد یہ کیا کہ تاریخ میں پہلی بار بھارتی باشندوں کو فی الفور کشمیر چھوڑنے کو کہا گیا، یہاں تک کہ ان بھارت نواز سیاستدانوں کو بھی خانہ نظربند کیا گیا جو ہمیشہ بھارت کے جابرانہ تسلط اور انسانیت کے خلاف جرائم  کو ایک جمہوری پردہ فراہم کرتے چلے آئے ہیں؟

کالعدم قرار دی گئی ان دفعات کا تاریخی سر چشمہ  کشمیریوں کا وہ خدشہ ہے جو انھوں نے  1920 کی دہائی میں شخصی ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کے سامنے ظاہر کیا  اور ان سے مطالبہ کیا  تھا کہ وہ ایک ایسا قانون بنائیں جو انھیں بہار اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آنیوالوں کے تہذیبی، سماجی اور اقتصادی غلبہ سے محفوظ رکھے۔ اس  جدوجہد میں  بطور خاص  اہلیان جموں جن میں ہندؤں کی  خاصی تعداد  شامل تھی نے بھر پور حصہ لیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ  جغرافیائی اعتبار سے اہل وادی کے مقابلہ میں  وہ اس  خطرے کی ذد میں زیادہ آتے ہیں۔ بعد ازاں 1927 سے 1932 کے درمیان ہری سنگھ نے یہ قوانین مرتب کیے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعہ بھارتی آئین میں شامل کر لیا گیا تھا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ  35A جو مسئلہ کشمیر سے بھی پرانی عمر رکھتا تھا کے تحت ریاست کے باشندوں کو جداگانہ  پہچان اور بطور مستقل شہری خصوصی حقوق حاصل تھے۔اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا۔یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائیداد حاصل نہیں کر سکتی تھیں  یہاں تک کہ کسی غیر ریاستی  باشندے سے شادی کرنے والی کشمیری لڑکی بھی ایسی صورت میں غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دار نہیں تھی۔ علاوہ ازیں کوئی غیر ریاستی  سرکاری نوکری حاصل اور نہ کشمیر میں آزادانہ طورسرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کی جانے والی دفعہ  35 اے کو بھی ختم کردیا گیا ہے اور کشمیری بجا طور پر اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں وہ فلسطینیوں کی طرح  اپنے ہی گھر  میں بے گھر ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔

دفعہ 370

کشمیر کی تاریخ کا  یہ بھی ایک ستم ہے کہ کہ مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ محمد عبداللہ  دونوں ریاست کی خود مختاری کو  برقرار رکھنے کے حامی  تھے مگر اقتدار کی رسہ کشی نے کبھی انکو ایک  سرے پر جمع نہ کیا۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلے تو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بعدازاں مشروط طور پر بھارت سے الحاق پر انکی  آمادگی  نے  آئین ہند میں دفعہ 370 کی بنیاد ڈالدی۔ بعد ازاں بھارت  اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرنے  اور انڈین یونین میں  اسے خصوصی نیم خودمختار حیثیت دینے  والی اس دفعہ کو بھارت کے پہلے  وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی کشمیری ہم منصب  شیخ عبداللہ کیساتھ پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

اسکا خاصہ  یہ تھا کہ دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں بھارتی حکومت ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر اپنے قوانین کا اطلاق ریاست پر نہیں کر سکتی تھی۔اس کے تحت ریاست کو سرکاری ڈھانچہ تشکیل دینے کے لئے  اپنا آئین بنانے اور الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ بھارتی  صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتاتھا اور  کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری تھا۔بھارتی آئین کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا نفاذ لازم تھا۔اور اس کو صرف اس وقت تبدیل کیا جاسکتا جب اس میں تبدیلی کے تقاضے پورے ہوں اور ریاست کی مرضی اس میں شامل ہو جس کی ترجمانی وہاں کی ریاستی اسمبلی کرتی ہے۔دفعہ میں تبدیلی صرف ریاستی اسمبلی کی سفارشوں پر کی جاسکتی تھی،مرکز اس کا مجاز نہیں تھا۔

بھارت نوازوں کی پوزیشن

بھارتی حکومت کے اس اقدام سے بھارت نواز سیاستدان خدا اور وصال صنم کے درمیان ہی کہیں اٹک کر رہ گئے۔ یہی لوگ تھے جو دفعہ 370 کے توسط سے بھارت کے کشمیر سے تعلق پر نازاں ہوا کرتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ انکی بھارت نواز سیاست کا تشخص اسی دفعہ کے مرہون منت ہے اسکا سایہ سروں سے اٹھ گیا تو وہ کہیں کے نہ رہیں گے۔ اب حالت یہ کہ محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ آج ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے دو قومی نظریہ ٹھکرا کر سیکیولر بھارت کا انتخاب کرکے بڑی غلطی کی۔

ستر برسوں کے وقت اور لاکھوں لوگوں کی جانوں کے زیاں کے بعد پیدا ہونے والا یہ احساس شائد دنیا کا مہنگا ترین احساس ہی کہلایا جاسکتا ہے۔ سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ اگر آرٹیکل 370 عارضی تھا تو بھارت کے ساتھ ہمارا الحاق بھی عارضی تھا دوسری طرف انکے فرزند عمر عبداللہ ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی جنگ ہے جو ہم ضرور لڑیں گے۔ کیا انکا یہ ایک چھوٹا سا جملہ انھیں گھسیٹ کر اس خیمہ حریت میں لا کھڑا نہیں کرتا جسکی دہائیوں کی مزاحمت اور بے پناہ قربانیوں کے ثمر بار نہ ہونے کی دیوار رکاوٹ میں یہی لوگ ہمیشہ اینٹوں کے بطور استعمال ہوتے رہے ہیں؟

بھارت نے کیا کھویا کیا پایا؟

مذہبی  جنونیت پر مبنی قوم پرستی کے جذبات کی تو مودی سرکار نے بظاہر تسکین کا بڑا سامان مہیا کر لیا ہے اور اپنے بارے  جو دوسرا نہ کر سکے وہ مودی کرے گا  کے خیال کو قدرے پختہ کرتے ہوئے اپنی اور پارٹی کے  منافع میں دوگنا اضافہ بھی  کرلیا مگر  حقیقتا یہ بھارت کی کوئی کامیابی نہیں ہے۔ اول تو یہ نہ صرف  کشمیری قوم کیساتھ معاہدہ شکنی اور صریح جارحیت ہے  بلکہ   بین الاقوامی قوانین ،اقوام متحدہ کی قراردادوں  یہاں تک کہ اسکے اپنے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ پھر اس قبیح حرکت پر سوائے سنگ پریورا کے  اس  نے  دنیا کے کسی  حلقے میں عزت نہیں کمائی۔

اس اقدام سے بھارتی حکومت نے گویا  اپنے ہی خلاف گواہی دیدی کہ  ریاست جموں کشمیر میں  سات لاکھ سے زائد فوج کے 30 برسوں سے  بدترین استعمال ، اپنے آئین کے تحت انتخابات کےدرجنوں ڈراموں کا انعقاد ، کٹھ پتلیوں، مسلح ملیشاؤں ، کھربوں  کی پروپیگنڈہ  مشینوں اور مراعات کے نام پر سیاسی رشوتوں کےاستعمال کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود وہ کشمیری عوام کو زیر یا مطالبہ آزادی سے دستبردار  کرانے میں قطعی طور پر ناکام رہا۔ یہ سوال خود ایک  جواب مہیا کرتا ہے کہ اگر بھارت گزشتہ 70 برسوں کے دوران کشمیریوں کو رام کرنے اور اپنے تسلط کو کسی جوازیت کا استحکام دینے میں دس فیصد بھی کامیاب رہا ہوتا تو آج مودی سرکار کو اتنا بڑا اقدام جو کسی طرح جوکھم سے کم نہیں ہے نہ اٹھانا پڑتا۔ایک زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ کشمیریوں کی کامیابی اور انکی استقامت کو سلامی دینے پر دلالت کرتا ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارتی حکومت کو انتا  بڑاانتہائی اقدام کرنا پڑتا ہے تو کیا وہ  اپنے فوجی استعمال کو غلط قرار دیکر  فوج کے خلاف احتساب کا عمل شروع کرے گی؟ کیونکہ  سات لاکھ فوج کا 30 سالہ استعمال کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتا۔اس اقدام سے بھارت نے وہ فاروق و عمر وو محبوبہ جیسے   لوگ بھی کھو دئے جو  اسکے لئے کٹھ پتلیوں کا  کام کرکے دیتے اور سب اچھا ہے کے بھارتی بیانیہ کے تاثر کا سامان مہیا کرتے تھے۔ کشمیری عوام کا کیا ہے وہ کل بھی مزاحمت کرتے تھے اور آج بھی کریں گے وہ اس میدان کے دھنی ہیں انکی پچھلی دو نسلیں آگ و آہن  میں ہی پلی بڑھی ہیں۔

بھارتی حکومت نے انکے اس وعقیدے کو اور راسخ کر لیا ہے کہ  مزاحمت کے سوا انکے کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں  ہے اور اس ضمن میں جو بھی انتہاء انکو میسر آئے وہ اسے ایک موقع غنیمت جان کر  حاصل کریں گے۔ اب انکے ساتھ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور دیگر بھارت نواز جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہونگے اور تو اور جموں کے وہ ہندو بھی  مخالفت میں کھڑے ہونگے جو  اس اقدام کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان میں خود بی جے پی کے کئی مقامی لیڈران اور کارکنان بھی شامل ہیں۔کشمیری  اپنی ستر سالہ تاریخ میں ثابت کرچکے ہیں کہ وہ راہ حصولِ آزادی سے ہٹنے والے نہیں ہیں خواہ ان کے خلاف کتنے ہی ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں وہ اس طویل سفر میں اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں واپسی ہے نہ شکست۔ یہ کھلا راز کشمیر  کے ہر درو دیوار پر لکھا ہے اور اسکے ہوتے ہوئے بھارت کو ایسے سنگین اقدام کی جسارت کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ظلم اور  جھوٹ کے بل پر کسی سرزمین پر قابض رہنا کوئی کامیابی نہیں ہوتی بھارتیوں کو  اسکے لئے پہلے ہی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اب اس نقب زنی کے بعد انکی مشکلات کسیاتھ کشمیر بل میں  کئی گنا اضافہ ہوگا ۔سو معلوم ہوتا ہے ایک ہندو قوم پرستی کے جذبے کی تسکین اور اپنے  ووٹ بینک میں اضافہ کی خاطر مودی سرکار نے بہت بڑی قیمت ادا کردی ہے۔

 پاکستان کیا کرے؟

پاکستان کے لئے لازم بنتا ہے کہ بھارت کے اس اقدام سے  جو  ایک اخلاقی  زمین اسے میسر آگئی ہے  وہ اسے سفارتی سظح پر  بھر پور طریقہ سے استعمال کرے اور کشمیری قیادت کے دیرینہ مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کو ترجیحات کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھے  اور  تمام سفارخانوں میں خصوصی کشمیری ڈیسک بناکر دنیا کی حکومتوں، مقتدر اداروں اور  عوام کو کشمیر کے حالات اور بھارت کے کریہہ چہرے کو دکھانے کی جارحانہ مہم شروع کرے۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد حقیقی معنیٰ میں پاکستان کی وکالت اور پشتیبانی کی اہلیت اور عزم کا  امتحان بھی شروع ہوگیا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز