میں کیا لکھوں؟

میرا کالم

میں کیا لکھوں؟

پہلے سوچا کہ پاکستانی سینیٹ میں اصطبل سجائے جانے پر لکھوں جس میں حاصل بزنجو 62 ووٹ رکھنے کے باوجود ہار گئے لیکن اس موضوع پر سوچتے ہی متلی ہو رہی تھی۔ مجھے یاد تھا کہ عمران خان نواز شریف کی چھانگا مانگا سیاست پر کس طرح تنقید کیا کرتے تھے۔ ہارس ٹریڈنگ کے مخالفین جب نواز شریف کا بیانیہ اختیار کرنے لگے کہ اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والوں نے دراصل اپنی ضمیرکی آواز پر ووٹ دیا تو میں نے ہم نیوز پر بھی زیادہ بحث نہیں کی، صرف بھارتی امپائرز کے کرکٹ میں بے ایمانی اور میر جعفر کا حوالہ دے کر چپ ہو گیا۔

میں نے پھر سوچا کہ کراچی کی بارش پر لکھوں کہ شہر میں ایک دن کی بارش سے پھر سب کچھ زیر آب آ گیا۔۔۔۔ نا لے کچرے سے بھرے رہے۔ بجلی کا کرنٹ لگنے سے کئی اموات ہوئیں۔ دو بچوں کو باہر کھیلتے ہوئے کرنٹ لگنے کی تصویر بہت ہولناک تھی لیکن جب یہ اعلان ہوا کہ پی ٹی آئی دو ہفتے میں کراچی کی صفائی کرے گی تو دل خوش ہو گیا۔ پھر صفائی کے لئے چندے کا اعلان ہوا ایک پارٹی پر حملے شروع ہوئے تو اس پارٹی نے جواب دیے ۔۔۔۔۔ صفائی کی افتتاحی تقریب میں جھاڑو اور پھاوڑے دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ کیا حالات ہیں۔ پیپلز پارٹی والے یوسف بے کاررواں بنے گھومتے رہے ۔ کچھ کر لیتے تو یوں گھر نا لٹتا۔

بارش کے بعد جو سیاست ہوئی اس سے اندازہ ہو گیا کہ اس بارش میں سب ننگے ہیں سو اس پر لکھنے سے گریز کیا ۔۔۔۔

ایک سوال پوچھا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر  ثالثی کی  دوسری ” ٹرمپ آفر”  سے تو پاکستان کی پوزیشن بڑی مضبوط ہو گئی تو عرض کیا کہ پہلی پیش کش کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ” مودی جی سے بات ہوئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ میں کشمیر کا مسلہ حل کراؤں”

دوسری پیش کش میں “بحر الکاہل” جیسی بڑی تبدیلی تھی “اگر وزیراعظم مودی چاہیں تو میں کشمیر کے مسلے پر ثالثی کے لئے تیار ہوں”

عرض کیا کہ  کیا یہ تو امریکی صدر نے ہمارے خلاف ٹرمپ کارڈ استعمال کیا ہے۔ ہم جو ورلڈ کپ جیت کر امریکہ سے آئے تھے وہ تو کاغذ کا نکلا ۔۔۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات فوٹو سیشن تھی تو میں اس کا منہ بند کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی دلیل نہیں صرف یہ ہے کہ امریکہ ایک بار پھر پاکستان کو افغانستان سے نکلنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

بھارتی وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو ثالثی کی پیش کش کا جواب نہیں دیا نا دوسری پیش کش کا ۔ دفتر خارجہ کا ایک ملازم بار بار کہتا رہا کہ ” نامنظور نامنظورثالثی نامنظور”

لیکن ہم جھومتے رہے ” وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ کام یاب ہوگیا ” ہم لہک لہک کے گاتے رہے ہمارے میڈیا کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھارتی وزیر داخلہ  امیت شاہ کے دورہ ایل او سی کی اس تقریر پر غور کرے۔۔

” ہم نے کشمیر کے مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ کشمیری آزادی وازادی کے نعرے بھول جائیں اور دشمن میرے بیان کا مطلب سمجھ لے ( 22 جولائی)

لیکن ہم تو گاتے رہے ” جھوم جھوم کے ناچو آج گاؤ آج ۔۔۔آج کسی کی جیت ہوئی ہے”

ہماری وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات ایک امریکی دورے اور صدر ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ کو 1947 کے بعد بڑی کام یابی سمجھ رہی تھیں۔ ہم ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر مشروط رضا مند بھی لگنے لگے ۔۔۔۔۔ بس فضول میں ۔۔۔۔ سب کو پتہ ہے کہ این آر او اور ایٹمی پروگرام ان کے بس میں نہیں۔

امیت شاہ کے دورہ کشمیر کو اگر سنجیدگی کے ساتھ لیا جاتا تو شاید کوئی راہ نکل آتی۔ لیکن ہم نے تو بھارتی فوج کی بڑی نقل و حرکت پر بھی دفتر خارجہ کے افسروں کی خاموشی اور وزیر خارجہ کی بے معنی گفتگو دیکھی ۔ بھارت مزید 1 لاکھ 80 ہزار فوج کشمیر بھیج رہا تھا، حالات تیزی سے خراب ہو رہے تھے۔ پاک بھارت ٹیلی فون لائین کبھی اچھی نہیں ہوتی مگر بات ہو ہی جاتی ہے۔ 2 اگست کو میری بات ایک بہت سینئر صحافی سے ہوئی۔۔۔

” تمہیں نہیں پتا کہ کیا ہورہا ہے ” اس نے پہلا وار کیا

” تم لوگ کشمیریوں پر مزید مظالم توڑو گے اور کیا ” مجھے نا جانے کیوں احساس ہوا کہ میرے لہجے میں بڑا کھوکلا پن ہے۔

” وہ تو توڑ ہی رہے ہیں لیکن اس بار 15 اگست کو پہاڑ ہی ختم کر دیں گے”

’’کیا مطلب ” میں سمجھا کہ یہ انٹرنیشنل باؤنڈری سے سندھ اور پنجاب پر حملے کی بات کر رہا ہے۔

” سجن ۔۔ یہ کھیل ختم ہونے والا ہے پھر پاکستان جانے اور اس کے دوست ۔۔ جموں کو ریاست بنایا جائے گا۔ وادی کو مرکزی حکومت کا علاقہ اور لداخ کو بھی ۔ جموں و کشمیر کا جھنڈا ختم آئیں ختم غیر مقامی لوگوں پر پابندیاں ختم ۔۔۔۔ووٹ ڈالنے کا حق بھی ملے گا اور پھر کشمیر اسمبلی بنے گی جو مسلم اکثریت کو ختم کردے گی”

میرے جسم میں خوف کی سرد لہر ترازو کر گئی ۔۔۔ اس کے چند لمحے بعد بھارت کی ایک اور صحافی کا ٹویٹ آیا ۔۔۔۔” فوج کی نقل و حرکت کا تعلق آرٹیکل 37 سے ہو سکتا ہے ؟ ”

میں نے ایک اور دوست سے بات کی ۔ سری نگر تک یہ خبر پھیلی ہوئی تھی ۔ ہم نے اسی شب 2 اگست کو ہم نیوز کے پروگرام میں زریاب عارف کے ایک سوال ہر یہ سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی کہ وقت بہت کم ہے پاکستان کو جو کرنا ہے جلد کرے۔

لیکن ۔۔۔۔وزارت اطلاعات اور دفتر خارجہ لفاظی میں لگا رہا ۔ بھارتی وزرا کام کر رہے تھے۔

بھارت کو اچھی طرح علم تھا کہ امریکہ پاکستان سے بلف کھیل گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسلامی سربراہ کانفرنس کا ایک عام سا بیان آئے گا، سربراہ اجلاس بھی ہو سکتا ہے لیکن بھارت کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔ اسلامی دنیا کے دو بڑے ملک مسلمانوں کے قاتل کو سب سے بڑے ایوارڈز دے چکے ہیں اور بھارت میں 58 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

5 اگست کو وہی ہوا جو 2 اگست کو بتایا گیا تھا صرف اس فرق کے ساتھ کہ جموں کو فی الحال وادی کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

اس اہم موقعے پر مجھے اپنا وزیر خارجہ کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔ ہماری معاون خصوصی برائے اطلاعات نے بھارتی آئین سے 37 اور 35 اے کے خاتمے کو کاغذی کارروائی قرار دیا لیکن ان کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ یہ ” کاغذی کارروائی” جموں و کشمیر اور لداخ  کے بنیادی مسئلےکو تبدیل کردے گی ۔ حق خود ارادیت، استصواب رائے کے بجائے اب بھارتی آئین کو تبدیل کرنے کی بات ہو گی جو بھارت کبھی نہیں کرے گا،۔۔۔۔

وادی ایک بڑے خون خرابے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایسی لڑائی ہو گی جس کی سنگینی فلسطین سے زیادہ ہو گی۔ ممکن ہے مزید مایوس ہوجانے والے نوجوان مزید خطرناک راستے تلاش کریں۔ ممکن ہے حزب المجاہدین داعش کا جو اثر روکنے میں کام یاب ہوتی رہی تھی وہ اب داعش کو نا روک سکے ۔۔۔۔۔

وادی کی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں آئیں گی۔ مسلح جدوجہد نیا اور خطرناک رخ اختیار کرے گی اور ہر قدم پر قتل گاہیں ملیں گی۔

۔۔۔ ہم فیس بک پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ خدا ناخواستہ یسین ملک شہید ہو گئے ہیں اس لئے  یہ فوج امن قائم رکھنے کے لئے آئی ہے ۔ لیکن ہم میں سے 90 فیصد یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ ہو کیا رہا ہے ۔

پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں یہ سوچنے کی بات ہے ۔ وزیر خارجہ نے 22 جولائی کے بعد  سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس کیوں طلب نہیں کیا ۔۔۔۔۔ بہت سوچنے کی بات ہے ۔۔۔ پاکستان کیا کر سکتا ہے یہ سوچنا موجودہ وزرا کے بس کی بات نہیں لیکن یہ اطلاعات حوصلہ افزا ہیں کہ پاکستانی فوج اس بار 27 فروری سے بھی کڑا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ پیدا کرنے والا برطانیہ اور یورپ کیوں خاموش ہے ۔۔۔۔۔۔

کیا پاکستان امریکی کی نائب معاون وزیر خارجہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا ہے ۔۔۔۔ افغانستان پر کس دل سے تعاون کریں؟

بھارتی وزیر اعظم مودی  کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جو کہتا ہے کرتا ہے اور جو نہیں کہتا وہ بھی کر جاتا ہے۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 370 اور 35 اے ختم کرے گا اس نے وعدہ پورا کیا ۔۔۔۔اس نے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ وہی کرے گا جو گجرات میں کیا ۔۔۔۔وہ کررہا ہے ۔۔۔۔۔ہم کہتے رہے کہ مودی جی انتخابات کے بعد مذاکرات کریں گے۔ وزیر خارجہ ہر دو روز بعد یہی راگ الاپتے رہے ۔۔۔۔ ہم دھوکے میں رہے ۔۔۔۔۔

کیا مودی نے افغان عمل سے نکالے جانے اور افغان امن عمل کو ناکام بنانے کے لئے یہ ” ٹرمپ کارڈ ” کھیلا ؟؟؟؟

یہ سب سوچ سوچ میں مایوس ہو گیا ہوں ۔ میں اس موضوع پر بھی لکھنا چاہتا تھا لیکن  ۔۔۔۔ نہیں مجھ میں ہمت نہیں۔

پاکستانیوں اور کشمیریوں کی نذر صرف چند تاریخی جملے پیش کر رہا ہوں جو کاش ہمارا کوئی لیڈر سلامتی کونسل اور عالمی اداروں میں یہ کہنے کی جرات کرسکے ۔۔۔۔ یہ پھانسی کا پھندہ چومنے والے بھٹو کے جملے ہیں سلامتی کونسل میں خطاب کے دوران ۔۔۔

” The people of jammu and Kashmir are part of people of Pakistan in blood , in flesh , in life -kith and kin of ours , in culture in geography in history in every way and in every form . They are a part of people of Pakistan.
The Indians may abandon their pledges and promises, we shall never abandon ours. Irrespective of our size and our resources, we shall fight.  But we shall fight in self defence, we shall fight for honor . We are not aggressors, we are the victims of aggression.”
ZUB in security council on September 22 , 1965 .

ٹاپ اسٹوریز