بھارتی اقدام اور عالمی امن

خبر ہونے تک

بھارت نے آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اخلاقیات، معاہدوں اور قوانین کی اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔ بھارت کا اپنا آئین ہو یا عالمی ضابطے اور معاہدے، مودی سرکا ر کے لیے وہ کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے،  کشمیری عوام سے کیے گئے وعدے، پاکستان سے کیے گئے معاہدے کی تو بھارت کی مختلف حکومتیں خلاف ورزی کرتی رہی ہیں لیکن اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور ضابطوں کو بھی مودی سرکار نے ہوا میں اڑا کر دنیا کو باور کرایا ہے کہ اس کے سامنے عالمی رائے عامہ اور عالمی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہے، انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں، قوموں کے حقوق کیا ہوتے ہیں اس کی بھی اسے کوئی پرواہ نہیں۔

بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ جس کی طاقت اس کی بھینس۔۔۔ فوجی طاقت کے بے پناہ استعمال کے بعد سرکاری طاقت اور پارلیمنٹ میں عددی طاقت کے بل بوتے پر مودی سرکار نے قوانین، اخلاقیات، انسانی اور قومی حقوق کی دھجیاں بکھیر دیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے 200 کے لگ بھگ ممالک میں بھارت ایک ایسا ملک ہے جو من مانیاں کرتا رہا ہے اور اب اس نے انتہا کر دی ہے، کیا اب بھی عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ کیا کشمیر کے مسئلے پرعالمی برادری مشرقی تیمور جیسا ردعمل دکھائے گی؟

بھارت نے صرف کشمیریوں کے ساتھ ہی ظلم نہیں کیا ہے اس نے عالمی امن کو بھی للکارا ہے، ناگا لینڈ سمیت دیگر علاقوں پر بھی تلوار لٹکا دی ہے، چین کو بھی متنبہ کیا ہے کہ اب اس کے علاقوں کی باری ہے، امریکہ سے کہا ہے کہ وہ خود کو اپنے تک محدود رکھے اور ثالثی کی باتیں بھول جائے، عالمی برادری کو پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کی پرواہ نہیں کرتا خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے پر موقف اختیار کیا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، کیا یہ 70 سال بعد اچانک اندرونی معاملہ ہو گیا، 70 سال پہلے اقوام متحدہ جا کر بھارت نے خود تسلیم کیا تھا کہ یہ ایک متنازع معاملہ ہے اور حق خود ارادیت کی قرارداد بھی واضح کرتی ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے، ایوب، نہرو مذاکرات، شملہ معاہدہ اور لاہور ڈیکلریشن جس پر خود جنتا پارٹی نے دستخط کیے تھے، سب میں اسے متنازع ہی قرار دیا جاتا ہے، اس کے بعد آگرہ میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا، سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیری قیادت کو شریک کرنے کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ یہ ہم دو ملکوں کا معاملہ ہے۔

بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370، جسے اب ختم کیا گیا ہے، کے مطابق کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ اب اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر مودی سرکار نے ایک طرف خود ہی اپنی حکومتوں کے فیصلوں اور پالیسیوں کی نفی کی ہے تو دوسری طرف خطے کو خوفناک صورتحال میں دھکیل دیا ہے، مودی سرکار کی جانب سے عالمی اور دوطرفہ معاہدوں کی نفی کرنے سے ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا، پھر کوئی بھی حکومت اپنی سابقہ حکومتوں کے معاہدوں اور فیصلوں کو ٹھکرا دے گی، یوں ایک ایسی انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے جہاں کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر اعتبار نہیں کرے گ، اطاقت کی ہی حکمرانی ہو گی، اس صورت حال میں اقوام متحدہ کی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی، مودی سرکار کے اس فیصلے سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے اندر تحریک آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گی بلکہ پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بھی بڑھے گی۔

مقبوضہ کشمیر کی وہ قیادت جو بھارتی حکومتوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور جو مسلح جدوجہد کے بجائے جمہوری انداز میں استصواب رائے کی بات کرتی تھی وہ بھی چیخ اٹھی ہے کہ مودی سرکار نے کشمیر کی حسین وادی کو تباہ کرنے کی جانب پہل کردی ہے، وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہم نے پاکستان کا موقف تسلیم نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے، کشمیری قیادت کی اس سوچ میں آنے والی تبدیلی اس جانب بھی جا سکتی ہے کہ وہ مجاہدین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں، اگر ایسا ہوا جس کے آثار پیدا ہو رہے ہیں تو پھر بھارت میں ایک نئی ریاست وجود میں نہیں آئی گی بلکہ نئی ریاستوں کے قیام کا راستہ کھل جائے گا، لداخ کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دینے پر چین بھی پکار اٹھا ہے کہ لداخ اور ملحقہ علاقوں پر چین بھارت کشیدگی پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے، افغانستان میں قیام امن اور امریکی فوجوں کی واپسی کی کوششیں بری طرح متاثر ہوں گی، طالبان کشمیری مجاہدین کی حمایت میں کھڑے ہو سکتے ہیں، اس طرح جنگ کا میدان وسیع ہو سکتا ہے اور امریکی امن کوششیں ایک بار پھر دم توڑ سکتی ہیں۔

مودی سرکار نے پورے خطے کو جنگی ماحول میں دھکیل دیا ہے۔ مودی سرکار یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مودی بھارت کو صرف ہندو ریاست بنانا چاہتا ہے۔ اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی کی انتہا پسندی دنیا گجرات میں دیکھ چکی ہے، کشمیر میں بھی اس دور میں جو مظالم ہوئے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں، دنیا کا کوئی ملک کسی ایک مذہب کا نہیں ہوسکتا، مودی کو اگر مسلمانوں پر یہ خار ہے کہ مسلمانوں نے چھ سو سال بھارت پر حکومت کی ہے اس کا اب انتقام لینا ہے تو مودی کو تاریخ پڑھنا چاہیے کہ مسلمانوں نے بھارت کے ہر مذہب کو کھلی آزادی دی تھی، مودی کی آج جو سوچ ہے اگر یہ سوچ مسلمان حکمرانوں کی ہوتی تو آج بھارت میں کوئی ہندو نہ ہوتا اور شاید بھارت کا یہ نقشہ بھی نہ ہوتا، بھارت کو متحد رکھنا ہے اور مودی بھارت کے گورباچوف نہیں بننا چاہتے تو انھیں مذہب دشمن بالخصوص مسلمان دشمن پالیسی ترک کرنا ہو گی۔

ٹاپ اسٹوریز