مودی ٹرمپ گٹھ جوڑ

ٹرمپ دراصل مودی کا مذاق اڑاتے ہیں: بھارتی میڈیا سمجھ گیا

ابھی تو غصہ کے بادلوں نے گھیرا ہوا ہے، ابھی توجذبات ابل رہے ہیں لیکن وقت کی اڑتی خاک جب گرد کی تہہ بٹھا دے گی تو پھر ہمیں پتہ چلے گا کہ زخم لگانے کا پس منظر کچھ اور بھی تھا اور مسئلے سے نمٹنے کا راستہ بھی نکل سکتا ہے۔

یہ ایک اتفاق نہیں تھا کہ ٹرمپ سے بھارتی وزیراعظم مودی نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی اور پھر امریکی صدر نے یہ بات پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ میڈیا کے سامنے دہرا دی۔ کشمیر پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ پہلے حکمت عملی تیار کر چکی تھی جو ٹرمپ کے سامنے پیش کی گئی جس کے بعد امریکی صدر نے ثالثی کی پیش کش کی۔ یہ حکمت عملی اسرائیلی حکمت عملی سے مشابہہ لگتی ہے۔ اس کے پیچھے صاف نظر آتا ہے کہ بھارتی حکومت نے وہی حربہ آزمایا جو اسرائیل نے آزمایا تھا۔ نئے قبضہ کیئے گئے علاقوں پر اسرائیلی صدر نے ٹرمپ کے نام پر بستی بسانی شروع کی ہے۔ یقنی طور پر یہ ٹرمپ کے صرف نام نہیں ہو گی بلکہ اس میں امریکہ کے نامور رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ڈونلڈ ٹرمپ کی سرمایہ کاری بھی ہو گی۔

جب بی جے پی کے نظریاتی ہتھیار امیت شا نے راجیہ سبھا میں ایک گھنٹے سے طویل تقریر کی تو انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے سے وہاں کے عوام پر ان کی نظر میں ہونے والے فوائد گنوائے اور پاکستان پر حملے کیے لیکن اس سب کے پیچھے چھپا معاملہ انہوں نے آخری چند جملوں میں بیان کیا۔ امیت شا نے اپنی تقریر کے اختتامیہ میں اصل بھارتی پلان کھولا مقبوضہ جموں و کشمیر میں غربت کا الزام صرف اور صرف پراپرٹی بزنس کا نہ چلنا قرار دے دیا۔ موصوف نے کہا ”غریبی کیسے بڑھی ہے دیش بھر میں آزادی کے بعد زمین کی قیمت میں سینکڑوں گنا اضافہ ہوا لیکن جموں کشمیر میں نہیں ہوئی کیونکہ خریداروں کو محدود کردیا گیا تھا خریدنے والا بھی غریب بیچنے والا بھی غریب، جب تین سو ستر ہٹھے گا تو صنعت جائے گی روزگار ملے گا اور ان کی بھومی (زمین) کی ویلیو بڑھے گی‘‘

یہ تھا وہ پلان جو صاف ظاہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر ممالک کو بیچا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کمپنی بھارت میں پہلے ہی رئیل اسٹیٹ میں ہاتھ ڈال چکی ہے۔ ان کی بیٹی ایوانکا اور داماد اس بزنس ڈیل کو دیکھ رہے ہیں۔ اس ڈیل کا انوکھا پہلو یہ ہے کہ ٹرمپ کی کمپنی براہ راست کچھ سرمایہ کاری نہیں کرے گی بلکہ اپنا نام یعنی ٹرمپ ٹاور کو فرنچائز کے طور پر دے گی۔ اس ڈیل کے تحت بھارت کے چار شہروں میں ٹرمپ ٹاورز کی تعمیر جاری ہے یہ ٹاورز ممبئی، پونا، گڑگاوں اور کلکتہ میں تعمیر کیئے جا رہے ہیں۔ صرف ممبئی میں تعمیر کیا جانے والا پچھتر منزلہ تین سو لگژری فلیٹ کا منصوبہ ٹرمپ ٹاور کی فرنچائز لے کر ٹرمپ ٹاور نام رکھنے کے بعد ممبئی کا مہنگا ترین اپارٹمنٹس کا منصوبہ بن گیا ہے جہاں ایک فلیٹ کی قیمت نو کروڑ بھارتی روپے سے اوپر شروع ہوتی ہے۔

یہ تمام منصوبے بی جے پی کو فنانس کرنے والی رئیل اسٹیٹ کمپنیاں بنا رہی ہیں، ٹرمپ کی کمپنی کو یہ سب مل کر رائلٹی کی مد میں مجموعی طور پر ڈیڑھ ارب ڈالر دیں گی۔

بی جے پی نے واضع طور پر یہی پلان ٹرمپ کو بیچا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اگر بھارتی قوانین لگا دیے جائیں اور بدترین ریاستی جبر سے مخالفین کو رفتہ رفتہ ختم کر دیا جائے تو چار سے پانچ سال میں یہ علاقہ ٹرمپ ٹاورز کی تعمیر اور منافع کمانے کا بہترین ذریعہ ہو گا۔ ٹرمپ کے ہوٹل اور ریزورٹس کے لیے سب سے موزوں ہو گا۔ ایک رئیل اسٹیٹ بزنس مین ایسے منافع کو کیوں منع کرے گا۔ اس میں جہاں ٹرمپ کو بیٹھے بٹھائے اربوں ڈالر مل رہے ہیں وہیں بی جے پی کے فنانسرز کی بھی چاندی ہو رہی ہے۔ امیت شا نے اس منصوبے کے مکمل ہونے کی ڈیڈ لائن پانچ سال رکھی ہے۔

لیکن اسی داستان میں بھارت کی ناکامی کا فارمولا بھی پوشیدہ ہے۔ اسرائیل اور بھارتی منصوبوں کے کئی نکات میں فرق ہے۔ وہاں مسلمانوں کو مکمل طور پر بے دخل کر کے اسرائیل کی توسیع کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی ریاست میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے اسے اندرون اسرائیل سے کسی مضبوط دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ بھارت کی صورتحال مختلف ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ کام کرنا ناممکن ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو بھارت میں موجود کروڑوں مسلمانوں کا ردعمل بھارتی حکومت برداشت نہ کر سکے گی۔

بھارتی مسلمانوں میں اسوقت شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ کانگریس سمیت کئی جماعتیں مقبوضہ جموں و کشمیر کو ضم کرنے کی مخالفت کر چکی ہیں۔ سب سے اہم بات سرمایہ کاری کے لیے امن کا ہونا بہت ضروری ہے، جب تک امن نہ ہو اسوقت تک کتنا بھی بڑا صنعتی و تعمیراتی منصوبہ ہو کامیاب نہیں ہو سکتا اور امن کے لیے ضروری ہے کہ سارے فریقین راضی ہوں۔ جبر سےامن کا راج نہیں آتا۔ بی جی پی حکومت نے کرفیو لگا کر میڈیا اور انٹرنیٹ اور فون سروسسز بند کر کے آوازیں دبانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کام کتنے دن یا مہینہ جاری رہ سکتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی کارروائی کو دن دیہاڑے ڈکیتی کہا جا رہا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر پیپلز فرنٹ کے صدر شاہ فیصل نے لکھا کہ کشمیری اپنی شہریت کھو کر غلام بن گئے ہیں۔ بھارت نواز کشمیری رہنما بھی اب کھل کر بھارت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس وقت بھارت کی حکومت اپنی سیاسی موجودگی مکمل طور پر کھو چکی ہے۔

اگر مقامی آبادی کےدلوں میں غم وغصہ ہو گا اور وہاں کی آبادی ستر سالہ جدوجہد کی تاریخ رکھتی ہو گی تو پھر وہ پہلے سے زیادہ ردعمل دے گی اور جب تک مقامی آبادی کا غم و غصہ رہے گا اسوقت تک وہاں پر ٹرمپ ریزورٹ ہو یا ہوٹل کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔

بھارت نے آرٹیکل 370 ہٹا کر کوشش کی ہے کہ سفارتی سطح پر صرف آزاد کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا جائے اور یہ فارمولا بھارت میں بیچنے کی کوشش کی ہے کہ اسطرح مذاکرات صرف اور صرف آزاد کشمیرکو بھارت کے قبضہ میں لینے پر ہوں گے۔ امیت شا ہوں یا نریندر مودی، دونوں یہ بھول گئے کہ جب مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدوجہد آزادی تیز ہو رہی ہو گی اور اب کی بار غصہ مزید بڑھا ہوا ہو گا، نعرے آزادی کے لگ رہے ہوں گے پرچم پاکستان کا مظاہرین تھامے ہوں گے تو وہ کیسے مقبوضہ جموں و کشمیر کو مسئلہ کے حل سے علیحدہ کر سکے گا۔ بی جے پی اسوقت ہوا میں منصوبے بنا رہی ہے، ذرا کرفیو ہٹنے دیں پھر یہ منصوبہ چند ماہ میں یقینی طور پر زمین بوس ہوتے نظر آئے گا۔ اگر اسے بی جے پی اور بھارتی اسٹبلشمنٹ کا اپنے اوپر ہی خودکش حملہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

ٹاپ اسٹوریز