سازش ابھی باقی ہے

دستور کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 الف کی تنسیخ کر کے کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ نریندر مودی کا خود کش حملہ ہے۔ یہ مودی کا اپنے اوپر اور اپنے فوجی جوانوں پر خود کش حملہ ہے۔ کیونکہ کرفیو کے دوران لاکھوں فوجیوں کی موجودگی میں گھروں سے نکل کر احتجاج کرنے والے کشمیری جوانوں کا اب نیا نعرہ ہے۔

“جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے”

کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لئے ایران، بنگلہ دیش، ترکی، ملائشیا، پاکستان غرض پوری دنیا میں احتجاج شروع ہو چکا ہے۔ ۔

کشمیرکا برہان وانی اپنے جنازے پر آزادی کشمیر میں نئی روح پھونکتا ہے تو دل پگھلتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں۔ جگر خون ہو جاتا ہے۔ کتنی عصمتیں لٹ گئیں، کیا خوبصورت گلابی رخسار خوں میں نہا گئے۔ زندگیاں آزادی کی جنگ لڑتے برباد ہو گئیں اور اچانک ایک صبح سب کچھ ختم ۔

نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

کشمیر میں کرفیو اور ہر گھر کے سامنے ایک فوجی کی تعیناتی ، دھمکیوں اور زور زبردستی کے باوجود کشمیری جوانوں کو گھروں سے نکلنے سے نہیں روکا جا سکا۔۔ سری نگر میں ہر چند سو میٹر کے بعد ناکہ لگا ہے۔ اب تک ہزاروں افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں، کشمیر کے جوانوں کے سینے میں دل نہیں دھڑکتے آگ بھڑکتی ہے۔ آزادی کی آگ۔ جو نوجوان الگ پرچم کے ہوتے ہوئے بھی ستر برس سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں کیا وہ پرچم چھن جانے کے بعد اپنی جدوجہد روک دیں گے؟ لاکھوں فوج مٹھی بھر جوانوں کو نہیں روک پائی تو کوئی قانون کیا روک پائے گا؟ وادی کے حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ہندوستانی فوج کا وہاں ٹھہرنا ممکن نہ رہے گا۔ وہاں کا بچہ بچہ سر پر کفن باندھ کر نکلے گا۔ ہندوستانی فوج کے لئے کشمیر قبرستان ثابت ہو گا۔

آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ماضی میں کیا کیا ہوتا رہا اور اب بھی کیا ہونے جا رہا ہے۔ جہاں لارڈ ماونٹ بیٹن ھندوستان تشریف لائے ہیں۔ ان کی خوبصورت عقلمند بیگم ان کے ہمراہ ہیں۔ نہرو استقبال کرتے ہیں تو عقلمندی اور حسن کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ھندوستان کے حالات دیکھتے ہوئے جلدی ہے کہ تقسیم ہو جائے۔ تقسیم کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ لکیریں کھینچنے کے لئے ریڈ کلف آتے ہیں تو اشتعال میں مبتلا ہیں ۔ کہاں لکیر کھینچوں۔ کون سے شہر کو کہاں سے کاٹوں۔ کون سا دریا کس طرف کو موڑوں۔ جبکہ ماونٹ بیٹن کو خلوص کے ساتھ ملکہ کا دیا ہوا کام مکمل کر کے واپس جانا ہے۔

فسادات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ھندو مسلم اسٹیٹ کو الگ ہونا ہے لیکن قائداعظم کو منانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ھندوستان کو متحد رہنے دیں۔ نہرو متحد ھندوستان کے پہلے گورنر جنرل بننے کے خواہشمند ہیں۔ گاندھی چاہتے ہیں بر صغیر تقسیم نہ ہو قائداعظم کو منایا جائے۔ نہرو اپنی ضد چھوڑنے کو تیار نہیں۔ تقسیم نا گزیر ہے۔ لیکن ملکہ بر طانیہ کے ہرکارے کو یہ علم نہ تھا کہ تقسیم کی خبر سنتے ہی بلوے شروع ہو جائیں گے دونوں طرف کی آبادی ہجرت پر نکل پڑے گی۔ کلف پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے کہ تقسیم جلد از جلد ہو۔ لکیریں کھینچو تا کہ سونے کی جس چڑیا کو کنگال کر دیا گیا ہے، اب اس سے فرار ہوا جائے۔ تو کلف پہلے سے لارڈ ویول کا بنایا ہوا تقسیم کا نقشہ ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ ماونٹ بیٹن کو اصرار ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ مجھے لا علم رکھا گیا میری کمر میں خنجر گھونپا گیا۔ لارڈ ویول تقسیم کا پلان بنا چکے تھے۔ لیکن اوپر سے آئے احکامات کو کون ٹال سکتا ہے۔ زمین کی اس کاٹ پیٹ میں دوستیاں کام آئیں۔ امرتسر اور گرداسپور کو پہلے پاکستان میں شامل کیا گیا لیکن پھر اسے ہندوستان سے ملا دیا گیا۔ جناح کے علم میں لائے بغیر مزید کانٹ چھانٹ ہوئی۔ مشرقی پاکستان یوں جناح کو بخش دیا جاتا ہے کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے۔ برطانیہ نے کیا شاطرانہ چال چلی۔ جغرافیہ ہی ایسا تھا کہ الگ کرنے میں چند سال لگے۔

کس کی کمر میں کب خنجر گھونپا گیا؟ کون سی سازش بنی گئی؟ قائداعظم نے کہا یہ تقسیم اس لئے ایسی کی گئی تا کہ ہم ڈرے سہمے زندگی بسر کریں۔ برطانیہ اور ہندوستان کے درباروں ، راہداریوں اور غلام گردشوں میں فیصلے کب کے ہو چکے تھے۔ ہندو بنیا کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ وطن سے عشق کا سودا سر میں سما جائے تو اسکے مقابل ہر سودا گھاٹے کا ہوتا ہے۔

گو راجہ ہری سنگھ نے تقسیم کے وقت ہندو ہونے کے باوجود ہندوستان سے الحاق پسند نہ کیا اور غیرجانبدار آزاد کشمیر کا آپشن منتخب کیا لیکن وہ زیادہ عرصہ اسے بر قرار نہ رکھ سکا۔ پاکستان کے ساتھ تقسیم کے وقت جو سلوک کیا گیا تھا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آزاد ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ مدغم کا کہا جاتا تا کہ کچھ تو ازالہ ہوتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ پنڈت نہرو نے ایک سے زائد بار تسلیم کیا اور اکتوبر 1947 کو اپنے ٹیلی گراف میں اور نومبر میں مقننہ سے خطاب کے وقت کہا کہ فیصلہ استصواب رائے سے ہی ہو گا۔ کشمیری عوام کا فیصلہ ہو گا۔ 1948 میں ہندوستان اقوام متحدہ میں معاملہ لے گیا۔ 1957 میں اسپیشل اسٹیٹس کا درجہ شق 370 کے تحت دیا گیا جس کے مطابق غیر کشمیری وہاں زمین خریدنے کا مجاز نہ تھا۔ 1972 میں شملہ معاہدہ طے پایا۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے تین جنگیں لڑ چکا اور شاطر مودی نے وہ کشمیری جو آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ علاقے میں کئی لاکھ فوج کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے تھے اب ان سے ان کا وہ حق بھی چھین لیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ کن جھکاؤ پاکستان کی طرف رہا۔ کشمیر کا بچہ بچہ پاکستان کو ہی اپنا وطن کہتا ہے۔ لیکن اب انتہا پسند مودی سرکار نے ان تمام معاہدوں کی دھجیاں اڑا دیں جب افغانستان سے ہندوستان کی چھٹی ہوتے دیکھی تو ہٹلر کی طرح ستر سالوں سے قائم ریاست سے مخصوص درجہ چھین کر ہندوستان میں مدغم کرنے کی سازش کی گئی ہے اور اسکے بعد بی جے پی نے اپنے نوجوان کنوارے کارکنان کو شہہ دی کہ اب وہ کشمیر جا سکتے ہیں کیونکہ کشمیر کی گوری لڑکیاں اب ان کے لئے ہیں۔ یہ بیان جنگی جرائم کی زمرے میں آتا ہے۔

مودی کا اصل منصوبہ کشمیریوں کو کشمیر سے بے دخل کرنا ہے۔ کشمیر میں ہندووں کو بسا کر کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے گا۔ پھر ان کشمیری مسلمانوں پر زندگی اس حد تک تنگ کر دی جائے گی کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔ وہ سرحد عبور کر کے پاکستان آنا چاہیں گے تو پاکستان ان کو انکار نہ کر پائے گا۔ اس طرح آزاد کشمیر اور دوسرے علاقوں میں ان کشمیریون کو بسانا ہو گا۔ مودی حکومت جب پوری طرح مقبوضہ کشمیر پر قابض ہو چکی ہوگی توپھر وہ آزاد کشمیر کا رخ کرے گی ۔ ہندوتوا کا عروج اسی شیطانی کھیل کا پتہ دیتا ہے۔ ہندوستان پر ایک ایسا جنونی قابض ہے کہ جو اپنی انا کی تسکین کے لئے تمام قوانین اور اخلاقی اصول بالائے طاق رکھ کر آگ اور خون کا کھیل کھیل سکتا ہے۔

اقوام متحدہ نے اس اقدام پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو قردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ابھی تو صرف تجارت بند ہوئی ہے۔ اگر ہندوستان بڑی معیشت ہے تو پاکستان تزویراتی معاملات میں امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کی مدد کے بنا افغانستان کے مسئلے اور دہشت گردی سے نہیں نمٹ سکتا۔ ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا اور بہت جلد آنا پڑے گا۔ اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کو اہمیت نہ دی تو پوری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز