نظام چلنا چاہیئے

مریم نواز ہوں یا بلاول بھٹو، نظام چلتا رہنا چاہیئے۔ نظام کے چلنے کا بھی عجب انداز ہے اور جب لگتا ہے کہ اب آگے یکسانیت ہے تو یہ نظام نئے کردار مضبوط کردیتا ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب آصف زرداری صدر پاکستان تھے اور ن لیگ کے پاس پورا پنجاب تھا۔ پاکستان میں صاف ظاہر تھا کہ دو جماعتوں کا راج قائم ہو چکا ہے اور باتیں ہو رہی تھیں کہ اب یہ معاملہ امریکہ کی ری پبلکن جماعت اور ڈیموکریٹس جیسا ہے یعنی دو ہی جماعتیں راج کریں گی۔ پاکستان کا جمہوری نقشہ ایسا تھا کہ ستر کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے آغاز میں ابھرنے والے نوجوانوں کا سیاست پر راج تھا۔ اسفند یار ولی ہوں یا مولانا فضل الرحمان، نوازشریف ہوں یا آصف زرداری کی پیپلزپارٹی، جسے بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کہنا اُس وقت بہتر تھا، یا پھر گجرات کے چوہدری برادران یہ سب سیاست کے مضبوط کردار تھے اور لگتا تھا اب کئی اور دہائیوں تک سسٹم انہی کے ہاتھوں چلتا رہے گا۔

میثاق جمہوریت اقتدار کا ایک فارمولا طے کر چکا تھا۔اب ملک میں دو قومی جماعتیں اور متعدد صوبائی یا لسانی جماعتیں ہیں۔ شاید پاکستانی سیاست میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ سیاست دان پختہ مزاج ہو گئے ہیں۔ لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں تھے۔ زمینی حقائق کہہ رہے تھے کہ مسلسل سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار رہنے والی پاکستانی سیاست میں صرف دو جماعتوں کا راج ہو اور ان کی باریاں لگیں، ایسا ممکن نہیں ہے

اسی وقت یکایک ایک ایسا سیاسی کھلاڑی آیا کہ سب نے پہلے اسے ہنس کر مسترد کر دیا۔ جس کو 2002 میں ایک نشست مشکل سے ملی، 2008 کے الیکشن کا پارٹی نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ ان میں جعلسازی ہو رہی ہے۔ یہ جماعت قومی سیاسی افق پر لگتا تھا کہیں نہیں کھڑی۔ صرف دو سال بعد 2011 میں اس جماعت نے ڈرون حملوں کے خلاف مہم تیز کی، اس وقت امریکی ڈرون حملے ایک کے بعد ایک ہو رہے تھے۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ زبانی مذمتوں سے آگے نہیں جا رہی تھیں۔ اس وقت کھلاڑی کی جماعت نے خطروں کے کھلاڑی بننے کا فیصلہ کیا۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔ قبائلی علاقوں کے عوام اس سے براہ راست متاثر تھے انہوں نے اسے خوش آمدید کہا، دوسری طرف پاکستان کے دیگر شہروں اور دیہاتوں میں بھی ڈرون حملوں پر غم و غصہ تھا اسے خصوصی طور پر دائیں بازو کے لوگ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے زیادہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دے رہے تھے۔

اپریل 2011 میں پشاور میں دیگر علاقوں میں تحریک انصاف کے ڈرون کے خلاف دھرنوں نے نیٹو سپلائی بند کرا دی۔ قبائلی علاقوں اور کے پی کے میں تحریک انصاف کو حمایت ملنا شروع ہو گئی۔ وزیرستان تک مارچ اور اسلام آباد بند کرنے کا اعلان ۔۔۔ المختصر ڈرون کے خلاف مہم کو عمران خان اور تحریک انصاف نے عوامی مہم بنا دیا۔ لیکن اے این پی سمیت تمام دیگر جماعتوں نے اسے ایک چھوٹی جماعت کہہ کر نظرانداز کرنے کا رویہ برقرار رکھا۔ ڈرون کے خلاف احتجاج کی سزا امریکہ میں عمران خان کو ایسے دی گئی کہ اکتوبر2012 میں جہاز سے اتار کر امریکی امیگریشن حکام نے ڈرون حملوں کے خلاف پوچھ گچھ کی جس کے نتیجہ میں عمران خان کی فلائٹ مس ہو گئی۔

2002 کے انتخابات میں ایک سیٹ اور 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد جب ڈرون مخالف تحریک چلا کر2013 کے انتخابات میں شامل ہوئی تو اس نے اے این پی کو باہر کر دیا۔ قومی اسمبلی میں بھی نمایاں پوزیشن بنا لی۔ لیکن اس سے ’میری باری پھر تمھاری باری‘ کا فارمولا متاثر نہیں ہوتا نظر آتا تھا اور اے این پی کو ہٹا کر تحریک انصاف کو نئی صوبائی جماعت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ اگلی باری پھر زرداری کا نعرہ ہر جگہ گونج رہا تھا۔ سسٹم رک رہا تھا اور ایک جمود کا شکار نظر آتا تھا۔

لیکن انتخابی دھاندلی کو لے کر تحریک انصاف نے سیاسی تحریک شروع کر دی اور یہاں سے جمود ٹوٹ گیا۔ اب ’اگلی باری میری یا تمھاری‘ کا فارمولا ڈسٹرب ہو گیا اور اسی نے سسٹم کو آگے چلایا۔

تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد پھر اسی موڑ پر ہیں کہ سیاسی نظام کیسے چلے گا۔ کیا ایک بار پھر جمود کی طرف جا رہے ہیں۔ موجودہ اقتدار دس سال، پندرہ سال، بیس سال تک رہے گا۔ کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟

لیکن نظام کے چلنے کا بھی عجب انداز ہے۔ یہ نئے کردار تعمیر کرتا چلا جاتا ہے اور سسٹم چلانے کے لیے نئے کردار اب تیار ہیں۔ بڑے بڑے جلسے، گرفتاریاں اور اسمبلی میں جذباتی تقریریں اسی طرح مسترد کی جا رہی ہیں جیسے ڈرون کے خلاف مہم کو کیا گیا تھا۔ کرپشن کرنے والا کہہ کر مسترد کیا جا رہا ہے لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ نئے کردار اپنی جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔ کل تک جن کرداروں کو سب بچہ کہہ کر نظر انداز کر رہے تھے چند ماہ میں دیکھتے ہی دیکھتے وہ مرکزی کردار بن گئے۔ کون کیا کرے گا؟ کس کی سربراہی کس کے پاس ہو گی؟ سب طے ہو گیا۔

پاکستان کی سیاست پر راج کرنے کا راستہ احتجاجی سیاست ہی ہے۔ جس میں سڑکوں پر احتجاجی سیاست کرنے کا دم ہے، وہی آگے جاتا ہے۔ عمران خان بھی احتجاجی سیاست نہ کرتے تو شاید وزارت عظمیٰ تک نہ پہنچتے۔

نئے کردار پاکستانی سیاست کے احتجاجی مزاج کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں اب صرف جیلیں اور کچھ سختیاں، شاید باہر بھیجے جانے کے منصوبے اور یہ سب حربے استعمال ہوں گے لیکن نظام آگے ان نئے کرداروں سے ہی چلے گا یا یوں کہہ لیں یہی کردار اسے چلائیں گے۔ ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اور سوشل میڈیا کی مقبولیت کو رد کیا جا سکتا ہے لیکن ایک سال پہلے تک لکھی جانے والی تاریخ بتاتی ہے کہ یہی راستے تھے جو سسٹم میں نئے کھلاڑی دے گئے۔ انہیں راستوں نے مزید لوگ سسٹم چلانےکے لیے دے دیے ہیں۔ اب اگر ان راستوں کو روکیں تب بھی نئے کردار تو جگہ بنا گئے۔

بات صرف اتنی ہے سسٹم چلنا چاہیے اور سسٹم میں کسی ایک کا طویل اقتدار ٹھہراؤ لاتا ہے، لہذا نئے کرداروں کی جگہ بنتی رہنی چاہیئے۔

ٹاپ اسٹوریز