ہوئے تم دوست جس کے

مشہور نیٹ فلکس سیریز سیکرڈ گیمز سیزن 2 دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پہلی دو قسطوں میں لگا کہ یہ را نے لکھوائی ہیں وہی پاکستان مخالف روایتی پراپیگنڈہ لیکن جیسے جیسے کہانی آگے بڑھی تو راز کھلا کہ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ یہ سیریز ہندوتوا یا بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات کے گرد گھومتی ہے، ان نظریات کو دنیا بھر کے لیے ایک خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ سیریز ایک گرو اور اس کی تنظیم کے متعلق ہے جو پوری دنیا کو تباہ کرکے اپنے چند ماننے والوں کے ساتھ نئی دنیا کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا آغاز کرانا چاہتے ہیں۔  وہ ایک اسلامی شدت پسند کو استعمال کرنے سے بھی نہیں کتراتے جس کے لیے آخر میں بتایا گیا کہ اسے پاکستان کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ ہندو مذہبی تنظیم عالمی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں بھارت میں اسلامی شدت پسندوں کو غزوہ ہند کے نام پر استعمال کرتی ہے وہیں ہندو انتہاپسند ی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔

یہ سیریز صاف طور پر خوف کے کاروبار میں نئے کرداروں کے قدم رکھنے کا اعلان ہے۔ میڈیا ہمیشہ عالمی کردار بنانے کے لیے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جب افغان جہاد سویت یونین کے خلاف تھا تو امریکی اداکار افغان مجاہدین کے ساتھ سویت یونین سے لڑتے ہوئے کئی فلموں میں دکھائے گئے اور یہ اس وقت مثبت کردار کے طور پر پیش کیے گئے، پھر وقت بدلا تو عالمی سرمایہ داری کی نئی منڈیوں کے لیے ضروریات بدلیں اور یوسف رمزی سے شروع ہونے والی اسلامی شدت پسندی نائن الیون کی افسوسناک رہگزر سے ہوتی ہوئی افغان جنگ اور پھر عراق لیبیا کو تاراج کر کے داعش تک پہنچی۔ ہالی ووڈ سے بالی ووڈ تک فلموں کی بڑی تعداد اس کہانی کو فروخت کرتی نظر آتی ہے۔

اس تمام سفر کا مرکز اس ملک کو بنا کر رکھا گیا جسے گیارہ سال تک قریبی ترین دوست کہا گیا اور استعمال کیا گیا لیکن اسے ہی پھر عالمی خطرے کی وجہ قرار دیا گیا۔ تاہم اسلامی دہشتگردی کی اہمیت نئی منڈیوں کی تلاش اور تعمیر کے لیے ختم ہو رہی ہے اور مغرب کے نزدیک اب اسلامی شدت پسندی ایک عالمی مسئلہ نہیں بنتا نظر آرہا تو خوف کی تجارت کرنے والے نئے کردار تلاش کر رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں دس سال سے جاری معاشی بحران کے باعث سفید فام دہشتگردی کے واقعات تسلسل سے سامنے آرہے ہیں جس کی وجہ سے یہ تصور بڑھتا جارہا ہے کہ شاید سفید فام نسل پرستوں کی ایک عالمی جماعت اب دنیا میں دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے اسی طرح ہو گی جیسے کہ القاعدہ تھی۔

یہ وہ خیال یا تصور ہے جس سے عالمی سرمایہ داری خوفزدہ نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے گھر کے لوگوں کو بگڑتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی لیے نئے کردار کی تلاش کی گئی اور ہندوتوا یا ہندو شدت پسندی کا ماڈل زیادہ مناسب نظر آیا۔ اسلامی شدت پسندی ماڈل کا مرکزی نقطہ مرنے کے بعد جنت کا تھا جبکہ ہندو انتہا پسندی کو نسل پرستانہ خیالات میں ملا کر اسی دنیا کی نئے سرے سے تعمیر کا خیال پیش کیا گیا ہے۔ اس سیریز میں عالمی جنگ کا خطرہ اجاگر کیا گیا ہے جس کے پیچھے ہندو انتہا پسند عالمی جماعت ہو گی۔ ممبئی میں ایٹمی دھماکا ہو گا پھر پاکستان اور بھارت میں نیوکلیئر جنگ ہو گی جس میں امریکہ چین اور روس کود پڑیں گے یوں دنیا تباہ ہو جائے گی، صرف اس تنظیم کے ارکان خصوصی بنکرز میں محفوظ رہیں گے اور نئی دنیا برہما کی بنیاد پر بسائیں گے۔

ہندو انتہاپسندی اس وقت عروج پر ہے جس سے بھارت کے اعتدال پسند ہندو، لبرل اور ترقی پسند حلقے بھی اسی طرح پریشان ہیں جیسے وہاں پر بسنے والے کروڑوں مسلمان۔ بھارت ابھی تک امریکہ اور یورپ کا ایسے ہی پسندیدہ ملک ہے جیسے 80 کی دہائی میں پاکستان تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا دوسرا رنگ بھی نمایاں کیا جا رہا ہے، جس انتہا پسند مودی کو امریکہ میں خوش آمدید کہا گیا اس کی انتہا پسندی کو اب اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اور یہی انتہا پسندی خوف کی عالمی تجارت کے لیے اہم ہے۔

ایسا ہمیشہ ہوا ہے کہ جس نے بھی امریکہ بہادر اور اس کے اتحادیوں کی قربت سے لطف اٹھایا وہی بعد میں ان ممالک کی نظر میں دہشتگرد قرار پایا۔ اس ملک میں شدت پسندی نے جڑیں پکڑیں اور معاشرے کو خون میں نہلا دیا۔ وہ صدام حسین کا عراق ہو یا پھر جنرل ضیا کی سوچ کا پاکستان۔

اب نظر آتا ہے کہ باری ہے مودی کے بھارت کی۔ اسٹوری بورڈ وہی ہے جو اسلامی شدت پسندی کا تھا، بس اب نظریہ اور کردار تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اقوام عالم کو عالمی نیوکلیئر وار کا خطرہ بیچا جا رہا ہے ہم پاکستانیوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس بار دہشتگردی کا منبع پاکستان نہیں مودی کی سوچ قرار دی گئی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز