اب یا کبھی نہیں!

آج سلامتی کونسل کے اجلاس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہیں۔ کئی دہائیوں بعد کشمیر پر بات ہو رہی ہے۔ تاریخی لمحہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہونے والے احتجاج کی وجہ سے مودی اور اسکی حکومت شدید کوفت میں ہے کہ اس نے تو تیس ہزار بجرنگ دل کے غنڈے روانہ کیے تھے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ستم ڈھانے کو۔ لیکن کشمیری تو ایک طرف، برسلز سے لے کر لندن تک اور پیرس سے بنگلہ دیش تک دنیا نے جس بڑے پیمانے پر مودی کی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا اس سے انتہا پسند بی جے پی کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس احتجاج نے جہاں ہندوستان کے یوم آزادی کو یوم سیاہ میں بدل ڈالا وہیں یہ باور بھی کرا دیا کہ اتنی آسانی سے کشمیر کو ہضم نہیں کیا جا سکتا۔

بھارت کا خیال تھا کہ اسکے فیصلے کی راہ میں صرف پاکستان ہی رکاوٹ بنے گا اور چونکہ پاکستان اس وقت شدید معاشی تنگی میں مبتلا ہے سو وہ کچھ کر نہ پائے گا۔ باقی دنیا کو ویسے بھی اس مسئلے سے کوئی ذاتی لگاؤ نہیں اور جو تھوڑی بہت آواز اٹھے گی اسکو ڈپلومیسی سے دبا لیں گے۔ لیکن دوسری مرتبہ بھاری مینڈیٹ سے انتخاب جیتنے کے بعد مودی نے ضرورت سے زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو حرکت کر ڈالی ہے اس کی وجہ سے تخت یا تختہ جیسی صورتحال سے دوچار ہو گیا ہے۔ تخت پر تو وہ پہلے ہی براجمان ہے لہٰذا اب اسکے پاس صرف تختے کی گنجائش ہے۔

امریکہ برطانیہ روس فرانس اور چین سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ویٹو کا حق رکھتے ہیں۔ ٹرمپ ثالثی کی بات کر چکے ہیں اور بظاہر وہ ایسا کرنے کے خواہشمند بھی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ کھیل تو ایک عرصے سے شروع ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ سب مایہ ہے بلکہ یہ دنیا ہی نظر کا دھوکا ہے۔ بعض اوقات فیصلے بھی ایک سراب ثابت ہوتے ہیں۔ پھر بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ مودی پر دباؤ ڈالیں جبکہ روس نے بھی کہہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں مخالفت کی راہ پر نہیں چلے گا۔

لداخ کی وجہ سے چین خود فریق ہے بلکہ بھارت کو حملہ کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔ اب رہ گئے فرانس برطانیہ ۔ برطانیہ سے خیر کی توقع کی جا سکتی ہے، وہاں عمران خان کے مداح بورس جانسن آ چکے ہیں، سو غالب گمان ہے کہ وہ پاکستان کا زیادہ نہیں تو کچھ تو خیال کریں گے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے کشمیرکے اظہار آزادی کے اقدامات سے تو ایسا ہی نظر آتا ہے۔

آج کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت شریک نہیں ہوں گے۔ کیا آج کی بات چیت میں اس موضوع پر باقاعدہ کوئی اجلاس بلانے کی بات کی جائے گی۔ ہندوستان لابنگ اور شاطر چالوں کا استاد ہے۔ 75 ارب ڈالر کا معاہدہ امبانی نے اس لئے نہیں کیا کہ سعودی عرب اسکے خلاف بولے۔ عرب امارات تو پہلے ہی اپنے ملک میں مندر تعمیر کرا رہا ہے۔ آج اپنے اور پرائے کی تمیز کا دن ہے۔ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو گی۔ کون دوست ہے اور کون دشمن یہ واضح ہو جائے گا۔ ویسے تو پس پردہ بہت کچھ طے ہو چکا ہو گا۔

غالب امکان یہی ہے کہ صرف لارے لپے سے کام چلایا جائے گا کہ دونوں ملک جنگ سے باز رہیں۔ ممکن ہے کہ اس پر اگلا اجلاس طلب کر لیا جائے جس میں نریندر مودی کے اقدام کی مذمت کی جائے اور بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔ بھارت کو کہا جائے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قردادوں کے مطابق حل کرے۔ بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیریوں کا فیصلہ ان کی منشا کے مطا بق استصواب رائے سے کرے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ صرف تنبیہ کی جائے کہ مودی کشمیریوں پر سے ہر قسم کی پابندی اٹھائے۔ کرفیو ختم کیا جائے، اظہار رائے کی آزادی دی جائے اور گرفتار رہنماؤں کو رہا کر دیا جائے۔ کہا جائے کہ نریندر مودی جموں و کشمیر میں انتخابات کرا کر حالات کو درست کرے اور کشمیریوں کو وعدے کے مطابق روزگار اور اچھی زندگی فراہم کی جائے۔

اگر مودی کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر بھی دیا جائے تو کشمیری مقبوضہ کشمیر پر 370 آرٹیکل کے ساتھ پہلے کی طرح زندگی تو گزاریں گے لیکن آزادی کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ اس صورتحال میں اصل مسئلہ یعنی آزادی کشمیر پس پشت چلا جائے گا۔ ایک حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشمیر دونوں ملکوں کو بخش دینے کی بات کی جائے لیکن اس صورت میں بھی بھارتی کشمیر کے لوگ اپنی منزل حاصل نہ کر پائیں گے۔

تو پھر کیا کیا جائے؟ کہتے ہیں علاقے جنگوں سے حاصل کئے جاتے ہیں، پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ لیکن ان جنگوں کے بعد مذاکرات کی میز پر یہی علاقے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیے جاتے ہیں۔ اور ساتھ میں ہزاروں قربان ہوئے فوجیوں کی بہادری بھی خراج میں دے دی جاتی ہے۔ تو پھر ایسی جنگ کا فائدہ جو سینکڑوں ماؤں کی گود اجاڑ کر مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دے اور کبھی دباؤ میں آ کر فوجوں کو واپس بلا لے اور مفتوحہ زمین بھی واپس کر دے۔ کچھ بھی ہو یہ اب یا کبھی نہیں کی گھڑی ہے۔ جنگ یا مذاکرات کی میز پر فیصلہ ابھی ہو گا ورنہ کبھی نہ ہو پائے گا۔

سلامتی کونسل کا بھی یہ کڑا امتحان ہے۔ فلسطین، شام، عراق اور یمن میں لاکھون جانیں چلی گئیں اور سلامتی کونسل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی، دنیا تنازعات اور جنگی انتشار کے نتیجے میں لٹ پٹ گئی جبکہ عالمی طاقتیں اسلحہ بیچنے میں مصروف رہیں۔ اگر سلامتی کونسل تاریخ کے اس اہم موڑ پر مظلوم کشمیریوں کو ہندوتوا کی نذر کر دیتی ہے تو سمجھیں اس نے برصغیر کو ایک بڑی جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز