کشمیر اور قومی یکجہتی

خبر ہونے تک

کشمیر اور قومی یکجہتی

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان اور کشمیری عوام گزشتہ 72 برسوں میں جو نہیں کرپائے وہ مودی سرکار نے چند گھنٹوں میں کر دیا، ادھر بھارتی لوک سبھا نے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کیا ادھر دنیا بھر کے عوام کو پتہ چل گیا کہ دنیا کے کسی حصے میں کشمیر اور مسئلہ کشمیر بھی وجود رکھتا ہے جہاں بھارتی حکومت قابض ہے اور اس کی 8 لاکھ فوج جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر نہتے کشمیریوں کو سر عام قتل کر رہی ہے۔ اس بربریت میں بھارتی فوج نہ بچوں کو بخش رہی ہے نہ عورتوں اور بزرگوں کو۔ نوجوانوں کو سرعام برہنہ کر کے کھمبوں اور درختوں سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے، بھارتی حکمراں پارٹی بی جے پی کے غنڈے فوج کی پشت پناہی کے ساتھ پوری وادی میں دندناتے پھر رہے ہیں، راہ چلتی مسلمان عورتوں کو سڑکوں پر بے پردہ کر رہے ہیں اور پوری وادی کرفیو کی لپیٹ میں ہے

یہ سب کچھ عالمی میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کے کے ذریعہ دنیا بھر کی عوام براہ راست دیکھ رہی ہے اور مودی سرکار کی اس بربریت کو ہٹلر اور نازیوں سے تشبیہ دے رہی ہے، بھارت کی اس ننگی فوجی اور آئینی جارحیت کے خلاف دنیا بھر کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مختلف ممالک میں بھارتی سفارت خانوں کے باہر احتجاج کیا جا رہا ہے، خود بھارت کے اندر حقیقی جمہوری اور لبرل طبقہ مودی سرکار کے اقدام کی مذمت کر رہا ہے، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے مختلف فورمز پر بھی مودی سرکار کے اس فیصلے پر حیران ہیں اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، آرٹیکل 370 کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے جسے قابو کرنا اب مودی سرکار کے بس کی بات نہیں، کشمیر پر بھارتی اقدام کو دنیا یک زبان ہوکر کہہ رہی ہے کہ مودی سرکار نے نہ صرف خطے کو بلکہ دنیا کو جنگ کی آگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔

پاکستان گزشتہ 72 برسوں سے جس سفارتکاری پر زور دیتا آ رہا ہے وہ کمزور طرزعمل رہا ہے، اب یا پھر شاید کبھی نہیں جیسا ایک موقع خود بھارت نے پاکستان کو فراہم کر دیا ہے، اب ہمیں چومکھی لڑائی کے محاورے پر عمل کرنا چاہیئے۔ کمزور سفارت کاری نہیں بلکہ ٹھوس سفارت کاری کے ساتھ عوامی بیداری اور عسکری تیاری پر توجہ دے، یوم آزادی پاکستان کو یوم یکجہتی کشمیر منا کر اور بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر ملک کے اندر قومی یکجہتی کا ایک اچھا پیغام دیا گیا ہے، قومی یکجہتی کے اس پیغام کے ساتھ ساتھ سیاسی ہم آہنگی اور سیاسی یکجہتی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ قومی آواز سے زیادہ اور تیز آواز سیاسی آواز ہوتی ہے اور دور تک سنائی دیتی ہے، یہی آواز دنیا کو متوجہ بھی کرتی ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران جس سنجیدگی اور مسئلہ کی اہمیت کا ذکر کیا تھا اس کی ابتدا اور اس پر عمل کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر ہے، حزب اختلاف کا کام اپنے نام کی طرح حکومت کی مخالفت ہی کرنا ہے لیکن کشمیر جیسا قومی مسئلہ یکجہتی کا متقاضی ہے اور اس کے لیے جہاں حکومت کو پہل کرنا ہو گی وہیں اگر حکومت کو حکمت کے طور پر ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو ہٹ جانا چاہیئے کیونکہ یہ صرف کشمیر ہی کی نہیں پاکستان کی بقا کا بھی مسئلہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے جارحانہ اقدام سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح کا ایک گرم اور فوری حل طلب معاملہ بن کر سامنے آیا ہے۔ بھارت نے کوششیں شروع کر دی ہیں کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرے لہٰذا پاکستان کو موثر اور تیزرفتاری سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر وزرا مختلف ممالک جا کر بھارتی فوجی اور آئینی جارحیت کے خلاف اپنا اور کشمیریوں کا موقف پیش کر رہے ہیں اور اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں، انھیں اخلاقی حمایت بھی مل رہی ہے، تاہم ضرورت ٹھوس اور عملی حمایت کی ہے جس کے لیے حکومت کو سفارت کاری میں اپوزیشن کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری بالخصوص اس حوالے سے بہت موثر ثابت ہو سکتے ہیں، ذوالفقارعلی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے وارث کی حیثیت سے عالمی سطح پر ان کی ساکھ ہے، چین ہو یا امریکہ یورپ ہو یا افریقہ یا پھر مشرق وسطٰی اور جنوبی ایشیا، ہر جگہ بھٹوز کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔

میاں شہباز شریف بھی اس مقصد کے لیے یقینا اپنا کردار ادا کر نا چاہیں گے، اسی طرح اسفند یار ولی، سراج الحق، سردار مینگل، مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ اہم مذہبی شخصیات علامہ تقی عثمانی اور علامہ انس نورانی کو بھی اس عظیم مقصد میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اس تحریک میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ رابطوں کو متحرک اور مستحکم کیا جائے، بیرونی دنیا میں پارلیمینٹیرینز اپنے ووٹروں کا بہت خیال رکھتے ہیں اور ان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ اگر امریکہ، کینیڈا اور اسی طرح یورپین ممالک میں مقیم پاکستانی اپنے حلقوں کے پارلیمینٹیرینز کی رائے اپنے حق میں ہموار کریں تو وہ اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں اور مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

کئی ممالک میں پاکستانی اور کشمیری شہری نچلی سطح سے لے کر پارلیمینٹ تک منتخب نمائندے ہیں، انھیں متحرک کر کے ان کی حکومتوں کو اپنے حق میں کرنا چاہیے، سب سے اہم بات پاکستان کو بھارت بالخصوص مودی کی ذہنیت کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، وہ مسلمان دشمن سوچ رکھتا ہے، اس سے بعید نہیں کہ وہ گجرات جیسا سانحہ کشمیر میں بھی رونما کر دے اور پاکستان کی سرحدوں میں بھی گھسنے کی کوشش کرے، ایسی صورتحال میں سفارت کاری سے کام نہیں چلے گا بلکہ عسکری محاذ سرگرم ہو گا، اس کے لیے بھرپور عسکری تیاری اور چوکسی کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اندرونی محاذ پر عوامی بیداری، سیاسی استحکام  اور مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت ہو گی۔ اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن کا ایک صفحہ پر ہونا ناگزیر ہے۔

ٹاپ اسٹوریز