اور اب سقوط سری نگر‬

میرا کالم

یہ بہت مشکل وقت تھا ۔۔۔ اتنا مشکل کہ میں کچھ لکھ بھی نا سکا ۔ مجھے یاد ہے کہ سقوط ڈھاکا کی خبر سن کر میرے والد کو پہلا ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ایک گھنٹے پہلے تک وہ اخباروں کی ان ہیڈ لائینز سے دل بہلا رہے تھے کہ پاکستانی فوج نے دشمن کو پیچھے تک دھکیل دیا ہے۔ وہ شیر نیازی کو اپنا ہیرو قرار دیتے تھے لیکن اخبار پڑھتے ہوئے جب انہوں نے آکاش وانی لگایا تو انہیں دل کا دورہ پڑ گیا۔

اس وقت قوم سقوط ڈھاکا سے بالکل بے خبر تھی اور اگلے روز کے اخبارات میں بھی صرف یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ بھارتی فوج ایک سمجھوتے کے تحت ڈھاکا میں داخل ہو گئی ہے۔

اس المیے کے بعد گنگا، جمنا، سرسوتی اور عظیم شیردریا سندھو سے  نا جانے کتنا پانی بہہ چکا  لیکن پھر اچانک ہی 5 اگست کو  عارضہ قلب کے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ۔۔۔۔ وجہ تھی  سقوط سرینگر  ۔۔۔۔

اس بار صحافت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے خبردار نہیں کیا تھا ۔۔۔ دباؤ کے باوجود  بھارتی سرگرمیوں کی خبریں  آ رہی تھیں، کچھ چھپ رہی تھیں کچھ  ” چھپائی ” جا رہی تھیں ۔ کچھ نیوز چینلز چپ تھے کچھ بول رہے تھے ۔ ۔۔۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے بعد ابھی شہنائی بجنی شروع ہوئی تھی ۔۔ ابھی ” جیسے ورلڈ کپ جیت آیا ہوں ” کا نشہ چھایا ہوا تھا اور ابھی سب فتح کے نعرے بلند کر رہے تھے کہ ہم چند نے کہا میاں ذرا احتیاط سے ۔۔۔۔

ہمیں علم تھا کہ بی جے پی کے منشور میں کشمیر کے بارے میں کیا ہے۔ یہ بھی پتہ تھا کہ مودی جی پاکستان مخالف موقف پیش کر کے جیتے ہیں۔۔۔ یہ بھی وعدہ کر چکے ہیں کہ ” پرکھوں ” کے اصولوں پر چلیں گے۔ یہ کہ نہرو نے ولبھ بھائی پٹیل  کے مطالبات اور موقف کے باوجود بھارت ماتا کو تقسیم ہونے دیا۔ مودی جب نہرو پر تنقید اور گجراتی مرد آہن پٹیل کی حمایت کرتے تھے تو بھارت کے آئین کی حمایت کرتے نظر آتے تھے لیکن جب قوم کی تشریح کرتے تھے تو وہ اور پیچھے چلے جاتے تھے ۔۔۔ اپنے لیڈر اپادھیا  کے نظریات پر جس کے مطابق بھارت ” ہندو راشٹر ” ہونا چاہیئے۔ اپادھیا پٹیل سے بھی انتہا پسند ہندو مفکر تھا ۔۔۔۔ چانکیا سے متاثر اور چانکیا ” اکھنڈ بھارت ” کا نظریہ ساز تھا جو چندرگپت موریا ہی نہیں اشوک کا بھی مشیر اور مفکر تھا۔۔۔۔

کشمیر پر مودی کی فوری حکمت عملی واضح تھی جیسے چانکیا کی واضح تھی ۔۔۔ مودی پہلے کشمیر اور چانکیا پہلے ٹیکسلا  پر قبضہ چاہتا تھا، ہمارے ملک میں عمران خان  بہتر زندگی، کرپشن کے خاتمے، انفراسٹرکچر اور انسانی بہبود میں سرمایہ کاری،  ٹیکسوں میں کمی ، صحت کی سہولتوں  روزگار کی فراہمی ، قرضے نا لینے اور  بھارت سے اچھے تعلقات کی بنیاد پر ووٹ لے کر آئے۔ ہم اس خوش فہمی میں مگن رہے کہ مودی اس بار انتخابات جیت کر مسئلہ کشمیر وزیر اعظم عمران خان سے مل کر حل کریں گے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو سو فیصد یقین رکھتے تھے کہ ایسا ہی ہو گا۔

ہم نے اس وقت بھی غور نہیں کیا جب مودی نے جلسہ عام میں کہا کہ ہم نے ایٹم بم دیوالی کے پٹاخوں کے کے لئے نہیں بنایا۔  ہم بھی خبر لگا کر بھول گئے۔

ہماری وزارت خارجہ نے  وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کی تیاریوں میں بھارت کے نئے پٹیل اور بااثر وزیر امیت شاہ کی ایل او سی پر اس تقریر کا نوٹس نہیں لیا  کہ ہم نے کشمیر کے مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ آزادی کے نعرے بس اب ختم ۔۔ دشمن بھی میرا پیغام سمجھ لے ۔۔۔۔۔
ہم ایک ٹانگ پر کھڑے ثالثی کا شور مچاتے رہے۔ ہم نے یہ بھی غور نہیں کیا کہ مودی سے منسوب امریکی صدر کے بیان کی تردید بھارت کے ایک جونئیر افسر نے کی ہے۔

ہم تو خوش تھے کہ صدر ٹرمپ ثالثی کرائیں گے۔ یکم اگست کو مختلف بھارتی ریاستوں سے 28 ہزار فوجیوں کے تازہ دستے مقبوضہ کشمیر بھیجے گئے تو خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ بھارت کی ایک صحافی نے ٹویٹ کیا،

” 6 لاکھ فوج کی موجودگی میں مزید فوج کی تعیناتی۔۔۔۔یہ یقینا 370  کی منسوخی کی تیاری ہے”

تب ہماری وزارت خارجہ کو کچھ دال میں کالا لگا۔ پھر بھی وہ اس کی شدت کو سمجھ نہیں پائی۔

فوج ایل او سی پر بھارتی حملے کا جواب دیتی رہی لیکن دفتر خارجہ ” دیکھو اور انتظار کرو ” کی پالیسی پر عمل کرتا رہا۔ فوج نے  بھارت کو کئی واضح وارننگ دیں ۔۔۔۔ جوان بے جگری سے ایل او سی پر بھارت کو جواب دیتے رہے۔

مقبوضہ کشمیر جیل خانہ بن گیا۔ بھارت نواز قائدین بھی پکڑے گئے ۔۔۔۔ فاروق عبداللہ سے محبوبہ مفتی تک ۔۔۔ سب بھارت کا اصل چہرہ دیکھ کر یقینا اپنے بڑوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔

ایک لاکھ 80 ہزار مزید فوج کی تعیناتی کے بعد بھارت نے وہ اعلان کردیا جس کی منصوبہ بندی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنے منشور میں کی تھی۔۔۔۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں  ضم کر لیا ۔۔۔ لداخ کو کشمیر سے الگ مگر انڈین یونین کا علاقہ قرار دے دیا۔
پاکستان کی درخواست پر چین نے سلامتی کونسل کا جو اجلاس طلب کیا وہ مشاورت کی حد تک محدود رہا سلامتی کونسل نے بھارت کی مذمت کی نا اپنی استصواب رائے کی قرارداد منسوخ کی۔ معاملہ برابری پر ختم ہوا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس سے قبل بالکل درست کہا تھا کہ سلامتی کونسل میں ہمارے لئے کوئی ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، ہمیں احمقوں کی جنت میں نہیں رہنا چاہیے ۔۔۔ یہ درست تھا لیکن فیصلہ جو بھی آیا وہ وزیر خارجہ کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا، پہلی بار روس نے  کشمیریوں کے لئے استصواب رائے کے حق پر زور دیا ۔۔۔۔۔ یہ بڑی کام یابی تھی۔

میں مختلف دستاویزات اور بیانات کا جائزہ لے رہا ہوں۔ اہم بات یہ کہ سلامتی کونسل کے غیر رسمی مشاورتی اجلاس میں چین اور روس نے پاکستان کی حمایت کی۔ نسل پرستی اور صیہونیت کے خلاف روایتی پالسی کے پیش نظر جنوبی افریقہ نے بھی ساتھ دیا لیکن فرانس واضح طور پر ایجنڈے کے خلاف تھا۔ امریکہ اور برطانیہ  نے انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی۔ چین اور روس نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا حوالہ دیا۔ لیکن بات وہیں ہے ۔۔۔۔” دونوں ملک بات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کریں اور کوئی بھی حالات خراب نا کرے”

سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود پھر جذباتی  ہو گئے، کہنے لگے “موجودہ صورت حال میں بھارت سے کیسے  بات کروں۔ جب تک کرفیو ختم نہیں ہو گا میں انہیں فون بھی نہیں کروں گا”

سوال یہ پیدا ہوتا تھا  کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تقسیم اور مقبوضہ علاقے کو بھا رت میں ضم کیے جانے کے بعد بھارت سے کیوں مذاکرات کے لئے بے چین ہیں۔ کرفیو تو ہٹ رہا ہے۔ اسکول بھی کھل جائیں گے۔ ابھی ہم اس پر غور ہی کر رہے تھے کہ حسب معمول بھارت کا بیان آ گیا کہ ” ہم نے ایٹمی ہتھیار بنائے ہیں۔ پہلے یہ پالیسی تھی کہ ہم ایٹمی حملے میں پہل نہیں کریں گے لیکن اب اس کا فیصلہ حالات و واقعات پر ہو گا۔ ہم پاکستان سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ دہشت گردی بند کرے۔ اب مذاکرات کا ایجنڈا پاکستانی کشمیر کی بازیابی ہو گا”

وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھارتی وزیر داخلہ کے بیان کو دماغ کا خلل قرار دیا لیکن آئی ایس پی آر کے ڈائرکٹرجنرل نے جواب میں کوئی چوک نہیں کی اور کہا کہ ” اب مسلہ کچھ اور نہیں بھا رت کے قبضے کو ختم کرنے کا ہے۔ بھارت کو اس بار کسی بھی ایڈونچر پر 27 فروری سے بڑا سرپرائز ملے گا”

بھارت نے شملہ معاہدہ، اعلان لاھور، اعلان اسلام آباد سب توڑ دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ لائن آف کنٹرول اب سیزفائر لائین ہو گئی ہے۔
جہاں تک مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا تعلق ہے تو مجھے لال چوک بہت یاد آ رہا ہے۔ مغل بیکری کے کیک، پوشاک کے لباس، ظفر کے کھانے، شیخ حمزہ کی کتابیں ۔۔۔۔۔۔ پوری سڑک مجھے یاد ہے ۔۔۔۔ پہاڑ اور وادیاں یاد ہیں۔ قبرستان شہدا بھی یاد ہے۔ پہلگام، ترال، صفہ کدل ، ہر ہر پتھر یاد ہے اور بھارت یاد رکھے کہ اس کی 9 لاکھ فوج بھی پسپا ہو گئی۔ یہ سب کشمیری حریت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ دریائے جہلم اور نیلم تو پہلے ہی بھارت کے دشمن ہیں۔

میرے پسندیدہ شاعر گلزار صاحب کی سالگرہ 18 اگست کو تھی۔ بقول گل زار صاحب کیتو شنی راہو پھر جمع ہوئے ہونگے۔

لیکن میں نے گلزارصاحب کو کبھی منحوس نہیں سمجھا۔ اس سالگرہ پر ان ہی کی نظم بطور تحفہ نذر کی ہے۔ عنوان ہے وادی کشمیر ۔۔۔۔

بڑی اداس ہے وادی
گلا دبایا ہوا ہے کسی نےانگلی سے
یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے
درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے
جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہوگا
جھکا کے گردنیں آتے ہیں ابر نادم ہیں
کہ دھوئے جاتے نہیں خون کے نشاں ان سے!

ہری ہری ہے، مگر گھاس اب ہری بھی نہیں
جہاں پہ گولیاں برسیں، زمیں بھری بھی نہیں
وہ مایئگریٹری پنچھی جو آیا کرتے تھے
وہ سارے زخمی ہواؤں سے ڈر کے لوٹ گئے
بڑی اداس ہے وادی۔۔۔۔ یہ وادئِ کشمیر

( گلزار ۔ شعری مجموعہ  “رات پشمینے کی”

ٹاپ اسٹوریز