نیرنگی سیاست دوراں

زرداری صاحب مشرف کے اقتدار پر تنقید کرتے ہوئے آئے اور کیانی کو توسیع دیدی تھی، نواز شریف نے راحیل شریف کو توسیع کی پیشکش کی وہ نہ مانے، پھر اسلامی امہ کی فوج کی سربراہی کی فوری این او سی دے دی، عمران خان توسیع کے مخالف رہے اور پھر انہوں نے توسیع دے دی۔

سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ میں کروں تو ٹھیک ہے کوئی اور کرے تو کیریکٹر ڈھیلا۔

سب نے اپنے اقتدار کے لیے فوج کو استعمال کیا۔ فوج سے مسئلہ ان کا اتنا سا ہے کہ اگر میرے ساتھ ہو اور میرے سیاسی مخالفین کے خلاف میرا ساتھ دے رہے ہو تو سب ٹھیک ہے ورنہ ذاتی عناد کو سول ملٹری تنازعہ بنادیں گے۔ جنرل ایوب نے بھٹو کی نہ سنی اور ان کے سیاسی مخالفوں کی سنی تو وہ اپنے ڈیڈی کو برا بھلا کہنے لگے۔ پھر جنرل ضیا کو سب سینئرز کو فارغ کر کے لائے تو کہا کہ میرا صوابدیدی حق ہے۔ جب اسی صوابدیدی حق نے اپوزیشن کی سنی تو دشمنی ہو گئی اور صوابدیدی حق نے آئین کا کان مروڑنے کا جو اصول بھٹو صاحب سے سیکھا اسی پر عمل کرتے ہوئے آئین کا کان مروڑ کر اقتدار سنبھالا اور اہم عہدے پر تعینات کرنے والے کو پھانسی دے دی۔

نواز شریف نے اپنی مرضی کا آرمی سربراہ لانے کے لیئے جنرل مشرف کو منتخب کیا اور پھر جذبات میں آکر انہیں بھونڈے انداز سے ہٹانے کی کوشش کی، ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کی فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش ہوئی۔ ادارے کے وقار کی خاطر فوج کو مداخلت کرنی پڑی، پرویز مشرف کے فوجی اقتدار پر آج تک تنقید کرنے والی پیپلز پارٹی کو نہ قواعد و ضوابط یاد آئے، نہ کسی کی حق تلفی کا راگ سنائی دیا اور جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دے دی۔

میاں نواز شریف اپنے آخری دور اقتدار میں جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے پر تیار تھے پھر سعودی عرب نے فوری طور پر اسلامی امہ کی سربراہی کے لیئے خدمات مانگیں تو فوری طور پر دے دی گئیں، عمران خان اس پورے عرصے میں آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر تنقید کرتے رہے اور اب جب اقتدار ہاتھ آیا تو پھر سمجھ میں آیا کہ خطے کے حالات پالیسی کے تسلسل کے لیئے کس قدر اہم ہوتے ہیں۔

جہاں بھی حقیقی جمہوریت ہے وہاں اس معاملے پر بحث نہیں ہوتی کہ فوجی سربراہ کون ہو گا بلکہ اسے پروفیشنل معاملہ سمجھا جاتا ہے، ہمارے یہاں سیاستدان اس معاملے پر جان بوجھ کر چہ میگوئیاں کرتے ہیں اور اسے بھی متنازعہ بنا دیتے ہیں اور پھر اگر مرضی کا نتیجہ آیا تو سب اچھا ورنہ سول ملٹری تنازعہ، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقا جیسی آوازیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں آمریت نے جمہوریت کی اہمیت کو جسقدر اجاگر کیا، اتنا ہی سیاستدانوں کے منافقانہ اور غیر جمہوری رویوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ اصولی سیاست سے مفادات کی سیاست کے سفر نے جمہوریت کھو دی اور خاندانی آمریت مسلط کر دی۔ پاکستانی عوام کے ساتھ یہ مذاق ہی ہے کہ امریکی اور برطانوی جمہوریتوں کی مثالیں دینے والے یہ نہیں بتاتے کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں کسی ایک خاندان کی غلام نہیں ہیں، وہاں پارٹی سربراہ کے لیے بھی عملی انتخابات کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے نہ کہ جعلی انتخابات سے جس میں بھٹو اور شریف خاندان کے افراد ہی سربراہ بن سکتے ہیں، باقی پارٹی کے سارے عہدیدار نااہل اور ناسمجھ قرار دے دیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں سیاستدانوں کا معاملہ سادہ سا ہے۔ ہر سیاستدان کہتا ہے کہ میں جو کرتا ہوں وہ درست ہے دوسرے جو کام کرتے ہیں وہ غلط ہے ۔۔۔ ان کی جمہوریت ہو یا آمریت اپنی اپنی لغات ہیں لیکن ان میں ایک لفظ کی تشریح میں فرق نہیں اور وہ ہے عوام جنہیں استعمال کر کے اپنی آمریت مسلط کرنی ہے اور پھر انہیں بھول جانا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز