کھڑکی کھلی رکھنا

میرا کالم

ایک ماہ قبل جب ویوز میکرز میں زریاب عارف نے پوچھا کہ کیا بھارت سے سفارتی تعلقات توڑ لیے جائیں تو میں جنرل شعیب کے ساتھ اس اقلیت میں شامل تھا جو سمجھتی تھی کہ تعلقات کو کم درجے پر لے آیا جائے اور ہائی کمشنر کو واپس بلا کر ناظم الامور کی سطح پر تعلقات برقرار رکھے جائیں ۔۔۔ بھارت نے حرکت ہی ایسی کی تھی کہ ہم سب کے دلوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہڑپ کر کے بھارت کا حصہ بنا لیا تھا اور لداخ کو وادی سے الگ کر کے یونین کا حصہ قرار دے دیا تھا۔

بی جے پی نے عددی برتری کے بل پر آئین میں ترامیم کرائیں اور اتنی عجلت کی کہ پارلیمنٹ کا منظورکردہ بل صدر کو ہرکارے کے ہاتھوں بس بھیج دیا۔ سنا ہے صدر صاحب بھی عجلت میں واش روم سے نکلے، فائل پر ریمارکس پرنسپل سیکرٹری نے خود ہی لکھ ڈالے تھے کہ صدر صاحب واش روم واپس جانا چاہیں تو تاخیر نا ہو۔ صدر نے وہیں کھڑے کھڑے دستخط کئے اور فائل لے جانے کے بجائے پہلے محکمہ قانون کے افسر کو ” مس کال ” دی ۔۔۔۔ جس نے صدارتی حکم کا تیار شدہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔

اس صورت حال کے بعد کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا، چین اور پاکستان سفارتی محاذ پر سرگرم ہو گئے اور کنٹرول لائین پر بھارتی فوج نے حملے شروع کر دئیے۔ مقبوضہ کشمیر کا مکمل گھیراؤ کر لیا گیا ۔۔۔ ہر گھر کے سامنے بھارت سے آیا ہوا نیا تازہ دم فوجی کھڑا ہو گیا۔ ظلم کی وہ داستان شروع ہوئی جس کے کئی باب پہلے ہی لکھے جا چکے تھے۔

کشمیریوں کی ایک اور نسل جد وجہد کی بھٹی میں داخل ہو رہی تھی۔

تو ہم نے ان حالات کے باوجود ۔۔۔ دل نا چاہتے ہوئے بھی یہی کہا کہ قاتل سے رسم راہ رکھی جائے کہ یہ بھی ایک رسم ہے۔

حکومت پاکستان نے بھی یہی کیا۔۔۔ ہائی کمشنر، جو ابھی دلی گیا نہیں تھا، کو روک لیا گیا اور بھارتی ہائی کمشنر واپس چلے گئے۔
تعلقات کو کسی نا کسی سطح ہر برقرار رکھنا انقلاب ایران کے بعد ایک لازمی عنصر ہو گیا ہے۔ امریکہ نے خود اپنی سفارتی اور عسکری غلطیوں سے بہت سیکھا ہے ۔۔۔ آج کل تعلقات مکمل منقطع کرنے کا رواج نہیں ۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ اس کے بڑے فائدے ہیں۔

پاکستان کی حکومت پہلے بہت پر امید تھی کہ انتخابات جیتنے کے بعد مودی جی بس مذاکرات شروع کریں گے اور کشمیر کے مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا۔ انتخابات سے پہلے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اٹھتے بیٹھتے یہی کہا کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان سے بھی غیر ملکی اخبارات سے انٹرویو میں یہی کہلوایا گیا ۔۔۔ قوم بھی افیون کی اسی گولی کی عادی ہو گئی لیکن زمینی حقائق یہ تھے کہ نریندر مودی پچھلے جنم کا خواب پورا کرنے کے لئے آیا تھا۔

سنا ہے کہ مہا بھارت کے دور میں وہ کورو کا نوکر تھا جس نے پانڈو برادران سے مقابلہ کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا تھا ۔۔۔۔ چھل  کپٹ ڈنڈ بھید ۔۔۔۔ جو بھی راستہ اختیار کرنا پڑا کورو نے کیا ۔۔۔ لیکن شکست کھائی ۔۔۔ یہی مودی کے استاد راون کے ساتھ ہوا جسے مہا دیو کو اپنا بنا کر رکھنے کی کوشش میں راون خود بھی مارا گیا اور گھر کے بھیدی نے اس کی لنکا بھی ڈھا دی۔

کشمیر میں راون کا مقابلہ مختلف لوگوں سے ہے۔ یہ 75 سال میں بار بار پھونکا جا چکا ہے لیکن اس راون کو آخری بار جلانا ضروری ہے۔

تو تعلقات منقطع کرنے کی بحث کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر رائے لی گئی کہ بھارت سے مذاکرات ختم کر دیئے جائیں۔ اس بار ہم ” اقلیت” میں رہے لیکن اس بحث کو 90 سیکنڈ میں سمیٹنا  مشکل تھا کیوں کہ اس میں یہ اصول وضاحت طلب ہے کہ ” ہر جنگ مذاکرات سے ختم ہوئی ہے۔”

جنگ عظیم اول اور دوئم۔۔۔۔ جاپان پر ایٹمی حملے کے بعد تعمیر” جنگ کے نتیجے میں نئے ملکوں کا قیام ۔۔۔ پاک بھارت جنگیں۔۔۔۔ 1948 کی لڑائی جس کے بعد مذاکرات ہوئے اور اقوام متحدہ کی وہ قرارداد ہمیں منظور کرنی پڑی جو اس وقت مکمل فتح کی راہ میں حائل ہو گئی تھی لیکن آج صرف وہی قرارداد مسئلے کے حل کی ایک قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند جس ہر ماسکو میں  بھارتی وزیراعظم  لال بہادر شاستری  اور صدر ایوب خان نے دست خط کئے ۔ دست خط کرنے کے بعد رات کو شاستری جی  دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے ۔ پھر سیاچن اور کارگل ۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ سرکریک اور سیاچن پر مذاکرات کام یاب ہو گئے تھے۔ معاہدے کا مسودہ تیار تھا لیکن عین وقت پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اپنے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے کہا کہ بات تو بڑی ہے لیکن انتخابات کے بعد ہمارا وزیراعظم کیا کرے گا؟

سونیا کا خیال تھا کہ اس  کارنامے کا سہرا  کانگریس کے صدر کے بجائے ہاؤس آف نہرو کے کسی فرد کے سر ہو پھر فوج نے تو صاف انکار ہی کر دیا۔

کارگل کے معاملے کے لیے پاکستان کے وزیراعظم کو جنگ بندی کے لئے چھٹی کے دن واشنگٹن جانا پڑا ۔۔۔ وائٹ ہاؤس کے بجائے ۔۔۔۔ سڑک پار بلئیر ہاؤس میں صدر کلنٹن سے مذاکرات کرنے پڑے۔ صدر کلنٹن ہر نقطے پر وزیر اعظم واجپائی سے بات کرتے، منظوری لیتے اور  پھر نئی شرط رکھ دیتے۔۔۔ یہ ذلت آمیز معاہدہ تھا۔

لیکن میں اس ترتیب میں شملہ معاہدے کا ذکر کرنا بھول گیا۔ بہت سے لوگ اس کو برا کہتے ہیں لیکن یہ ایسے وقت میں سفارت کاری کا شاہکار ہے جب آپ کو مکمل اور بدترین شکست ہو چکی ہو۔  کئی بھارتی مصنف کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ، شکست کے بعد قابل رحم حالت میں، بھٹو کی بہترین سفارت کاری اور کسی حد تک ذاتی کرشمہ سازی کا بھی نتیجہ تھا۔

سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب بھارت ٹرک بھر بھر کر پاکستانی شہری اور فوجی قید کر رہا تھا تو ۔۔۔۔ پاکستان میں کوئی حکومت نہیں تھی۔ ڈھاکا کا دفاع کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والا جنرل نیازی اہنے دوست کے سامنے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال چکا تھا ۔۔۔۔ کوئی کچھ بھی کہے یہ فوجی حکمت عملی کے اعتبار سے بدترین لڑائی تھی جس سے لوگوں کو سقوط بغداد  بھی یاد آ گیا تھا۔ بھا رت نے ” پناہ گزین کیمپوں ” کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا۔ دنیا کو بتانے کے لئے کہ پاکستان کے ظلم سے تنگ آ کر کتنے بنگالی آئے ہیں ۔۔۔۔۔لاکھوں کو آسام میں آباد کیا گیا ( اب انہی  40 لاکھ  کو بھارت اپنا شہری قرار دینے سے انکاری ہے)

بھارت نے 45 ہزار کے لگ بھگ فوجی اور 30 ہزار شہری جنگی قیدی بنائے۔ بھٹو صاحب کو ہنگامی طور پر ملک واپس آنے کے لئے کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ وہ جنرل یحیی خان سے بے زار اور دل شکستہ تھے ۔۔۔۔پھر بھی ان سے درخواست کی گئی کہ کیوں کہ وہ باقی بچ جانے والے پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے سربراہ ہیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ ملک سنبھالیں۔

سنا ہے جنرل یحیی خان چارج چھوڑنے پر تیار نا تھا ۔۔۔ قانونی مشکلات الگ تھیں ۔ کوئی ایسا ڈھانچہ نا تھا کہ جو انتقال اقتدار کا اصول طے کر سکے۔ غلام اسحاق خان اس وقت کیبنٹ سکریٹری تھے ۔۔۔۔ تو سارے مسائل کا حل یہ نکالا گیا کہ جنرل یحیی خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا چارج ذوالفقارعلی بھٹو  کے حوالے کریں۔

جب یحیی خان نے حجت کی تو طیاروں کی ایک ٹولی نے ایوان صدر پر تین بار نچلی پروازیں کیں اور یوں غلام اسحاق خان نے انتقال اقتدار کے کاغذ پر یحیی خان سے دست خط لیے۔

بھٹو صاحب کی پہلی ترجیح عارضی دستور، پارلیمنٹ کا اعتماد اور جنگی قیدیوں کی واپسی تھی۔ ملکی حالات کے پیش نظر قد آور حزب اختلاف نے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی ۔۔۔ عارضی صدارتی دستور منظور ہوا تو بھٹو صاحب نے سفارتکاروں کو بھارت سے رابطوں کا ٹاسک دے دیا۔ امریکہ، روس اور چین بھی رابطوں کی زنجیر میں آ گئے۔ سقوط ڈھاکا کے باوجود سفارت کاری کا جو روشن دان کھلا ہوا تھا وہ بڑا ہونے لگا ۔۔۔۔اس سے زیادہ روشنی آنے لگی ۔۔۔۔

صدر ذوالفقار علی بھٹو نے آپشن دیکھے ۔۔۔ کچھ بھی نہیں تھے۔ 70 ہزار جنگی قیدی بھارت میں تھے۔ بنگلا دیش ان میں سے سینکڑوں پر جنگی جرائم کے مقدمے چلانے پر بضد تھا۔ بھارتی حزب اختلاف کا اصرار تھا کہ جنرل نیازی اور دیگر اعلی افسروں کے خلاف جنگی جرائم کے تحت کھلی عدالت میں مقدمے چلیں۔۔۔ مشرقی پاکستان تو بنگلا دیش بن چکا تھا لیکن سندھ اور پنجاب کے بڑے علاقے بھارت کے قبضے میں تھے ۔۔۔۔
یہ وہ مقام تھا جہاں فوج کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔ سب بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے۔

ذولفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف سے مشورے کئے ۔۔۔۔ تجاویز سامنے آئیں اور یہ اتفاق ہوا کہ بھٹو کو کھلا راستہ دینا چاہئے ۔۔۔۔ اگر تمام جنگی قیدی مقدمے کے بغیر واپس آ سکیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو گی ۔۔۔۔۔ پاکستانی علاقہ بھی واپس لینا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے کو بھی برقرار رکھا جائے ۔۔۔۔۔

سفارتی روشن دان پس منظر میں کام کرتا ہوا دروازہ بننے لگا تھا۔۔۔۔۔

پھر تاریخ کے ایسے عجیب مذاکرات شروع ہوئے جن میں ہار نے والا فاتح سے مطالبات کر رہا تھا ۔۔۔۔ مذاکرات ناکام ہو گئے۔ شملہ سے پاکستانی وفد کی واپسی  طے ہو گئی۔ اندرا گاندھی الوداعی ملاقات کے لئے آئیں تو بھٹو نے بہت خشک لہجے میں کہا ” تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی ”
اندرا گاندھی کچھ دیر چپ رہیں پھر بھٹو سے کہا ” لان پر چلیں یہاں بہت گھٹن ہے ”

کہتے ہیں 15 منٹ کی شانہ بشانہ واک کے بعد اندرا گاندھی نے عملے کو طلب کیا ۔۔۔ ٹایپسٹ کا ہنگامی انتظام ہوا، ٹائپ رائٹر تلاش کر کے لایا گیا۔ بھٹو صاحب نے عزیز احمد، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفے جتوئی، حیات محمد خان شیر پاؤ کو بریف کیا۔ اندرا گاندھی  سورن سنگھ اور دیگر معاونین کو ایک طرف لے گئیں ۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ سورن سنگھ اور بھٹو اس علاقے کے بہترین وزرائے خارجہ گزرے ہیں اس روز سورن سنگھ کو سبکی کا احساس ہوا ۔۔۔۔ انہیں یہ کہتے سنا گیا ۔۔۔۔۔” آر یو شیور میڈم ” اندرا گاندھی جواب دیے بغیر آگے بڑھ گئیں ۔۔۔۔

پھر وہ معاہدہ ہوا جس کو ہم شملہ معاہدہ کہتے ہیں ۔ ڈرافٹ پر بھٹو صاحب نے صرف ایک اعتراض کیا جو قبول کر لیا گیا اور معاہدے میں شامل کر لیا گیا ” یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے چارٹر  اور قراردادوں کے ماتحت ہے۔ ”

اب 2019 میں صورت حال یہ ہے کہ بھارت نے اس شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہے۔ میری نظر میں یہ سقوط ڈھاکا کے بعد ایک اور سنگین واقعہ ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کو بلاشبہ غصہ ہے کہ مذاکرات کے لیے ان کی کئی پیش کشیں مسترد کر دی گئیں۔ وزیر اعظم نے کئی بار کہا تھا کہ اگر ہم مسئلہ کشمیر ایک بار حل کر لیں تو ہمارا جنوبی ایشیا بے مثال ترقی کرے گا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ان کی ہر پیش کش کا ہتک آمیز جواب دیا گیا۔ اسی غصے میں وزیر اعظم نے کہا کہ ” میں نے جتنی بار بھی مذاکرات کی پیش کش کی اس کو خوش آمد سمجھا گیا۔ اب بھارت سے مذاکرات بے سود ہیں۔ ”

مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم اور فوج دونوں کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ کشمیر پر بات ہرگز نہیں ہو گی۔ میں نے پہلے بھی مشروط مذاکرات کی حمایت کی ہے اور اب بھی کررہا ہوں ہم مذاکرات کے لیے چند شرائط رکھ دیں

۔۔۔۔۔۔ اقوام متحدہ کی امن فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔ مذاکرات سے قبل  بھارت 5 اگست کے اقدامات پارلیمنٹ کے ذریعے واپس لے۔
۔۔۔۔۔۔ ان دو اقدامات سے قبل کرفیوختم کیا جائے۔ فوج واپس جائے اور تمام قیدی رہا کیے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔ مذاکرات استصواب رائے کرانے پر کئے جائیں گے۔

امریکہ، فرانس، چین اور دیگر ممالک مذاکرات کے حق میں ہیں تو ہمیں بھی ایک کھڑکی کھلی رکھنی چاہیئے ۔۔۔۔۔۔ لیکن بات قومی سلامتی تک پہنچے تو  وزیراعظم  نظیر بھٹو کی حکمت عملی کو سامنے رکھنا چاہیے۔۔۔

” ہمیں اطلاع ملی کہ بھارت سے حملہ ہونے والا ہے۔ ہم نے ساری رپورٹس جمع کیں اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بھی بتادیا ۔ پھر اطلاع آئی کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے طیاروں نے ہمارے  ایٹمی مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے علاقہ کا جائزہ لیا ہے۔ وہ خاتون تھیں لیکن کتنی بہادر سوچ کی مالک تھیں۔ انہوں نے ایک ایلچی بھارت بھیجا صرف یہ بتانے کے لئے کہ آپ کا کچھ نہیں رہے گا۔ اس بہادر خاتون نے ایف 16 طیارے ماری پور پر بھیجنے کی منظوری دی۔ ہماری ہدایت یہ تھی کہ یہ ون وے مشن ہو گا ( کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا لیکن شہادت سے قبل سب کچھ تباہ کر دینا)   یہ دیکھ کر امریکہ واقعی گھبرا گیا۔ اس نے رابرٹ گیٹس کو بھیجا جس نے صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کی اور کہا یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔ صدر نے وزیراعظم کے اقدامات کی حمایت کی اور کہا جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے۔ اس طرح یہ منصوبہ دلیر قیادت کی وجہ سے ناکام ہوا ”   ( جنرل مرزااسلم بیگ سابق چیف آف آرمی سٹاف ۔ ٹی وی انٹرویو ۔2017 )

بھارت کو 27 فروری اور 28 فروری 2019 نہیں بھولنا چاہیے جب ایک بار پھر امریکی مداخلت کی وجہ سے ایٹمی جنگ نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز