اپنا ٹائم آئے گا

کہتے ہیں انسان معاشرتی حیوان ہے۔ پہلے صرف جانور تھا انسانی ارتقا کے ساتھ ساتھ تہذیب یافتہ ہوتا گیا۔ اسی تہذیب نے اسے اوڑھنا پہننا اور رسم و رواج سکھائے لیکن اج کے انسان کو معاشرتی حیوان سے خونخوار حیوان بننے میں دیر نہیں لگتی۔۔ پتا ہی نہیں چلتا کب یہ بے لباس ہو کر اپنے اندر کی حیوانیت دکھا دے۔ ڈریکولا کی طرح اسکے دانت بھی باہر آ جائیں، ناخن باہر نکل آئیں اور تبھی اسی وحشیانہ کیفیت میں یہ ریحان مشال، عظمی زینب، اور منیب مغیث جیسے بے ضرر معصوم بچوں کو قتل کر دے۔

ان کے بھی نوکیلے دانت باہر نکل آئے تھے۔ وہ خونخوار بن گئے تھے۔ آدم خور وحشیوں کا روپ دھار لیا تھا ۔ وہ وحشی غصے سے منہ سے جھاگ اڑاتے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے ایک پندرہ سالہ خواب دیکھنے والے کمزور غریب ریحان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ اسکو اس وقت تک مارتے رہے جب تک ان کو یقین نہیں ہو گیا کہ وہ مر گیا ہے۔ وہ ریحان جس کے ناتواں کندھوں پر اس کم عمری میں کما کر گھر چلانے کا بوجھ تھا، جو لوگوں کے گھر جا کر جانوروں کی قربانی اس لیے کرتا تھا تا کہ کچھ پیسے مل جائیں۔ شائد اس وقت بھی وہ بھوکا ہو۔ لیکن اتنی نا مساعد زندگی نے اسکی آنکھوں کے خواب نہیں چھینے تھے۔ اسکے دل میں ٹین ایجر بچوں والی خواہشیں پلتی تھیں۔ وہ بھی اچھے کپڑے پہننے کا خواہشمند تھا۔ شائد اس نے وہ فلم دیکھی تھی تبھی اس نے جو شرٹ پہنی تھی اس پر لکھا تھا۔ ” اپنا ٹائم ائے گا”

ایک پندرہ سالہ لڑکے کو بے رحمانہ تشدد کر کے قتل کیا گیا، اس کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی اور قاتلوں پر ابھی تک الزام ثابت ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ گھروں میں کام کاج کر کے گھر کا خرچہ چلانے والی ماں اور درزی کا کام کر کے گزر بسر کرنے والے والد پر کیا بیتی ہو گی جب ان کو پتہ چلا ہو گا کہ ان کے نو عمر بیٹے کو انتہائی سفاکی سے چوری کا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا ہے۔ مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ تشدد کی وہ ویڈیو دیکھ سکوں پتہ نہیں اس طرح تاریک راہوں میں مارے جانے والے بچوں کے والدین زندہ کیسے رہتے ہیں۔

ریحان کے قتل میں کچھ نئی باتیں بھی سامنے آئی ہیں ایک تو یہ کہ ریحان کے قاتل اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور ان کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی ہے۔ ریحان کی ایک نئی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ عید والے دن اپنے دوستوں کے ہمراہ گائے قربان کرنے گیا ہے اور دوستوں کے ساتھ مل کر گائے کو زمین پر لٹا رہا ہے۔ ریحان کی والدہ جو کہ عدالت میں رو رو کر بے ہوش ہو گئیں اور والد جو لوگوں کے کپڑے سی کر گزر بسر کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ مجرمان کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ ریحان کے والد کی درخواست ہے کہ قتل کے اس مقدمے کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے۔ انھیں ڈر ہے کہ قاتل بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

کچھ مہینے قبل لاہور کے علاقے اقبال ٹاون میں 15 سالہ عظمیٰ کو اسکی مالکہ نے قتل کر کے لاش گندے نالے میں پھینک دی تھی۔ معاملہ ٹی وی، سوشل میڈیا پر وائرل ہوا لیکن اسکے باوجود قاتلوں کو رہائی مل گئی۔ کیا کسی کو پتہ ہے کہ وہ قاتل خواتین اب کہاں ہیں؟ وہ قاتل بھی کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے اسی لئے دیت دے کر چھوٹ گئے۔ بس ہمارے ملک میں کام کرنے والے غریب بچے ایک دیت کی مار ہیں۔ اب ریحان کے معاملے میں بھی پیسے لے دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جائے گا اور مجرمان گھر جا کر کسی اور بچے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے کو ناخن تیز کریں گے۔

آرمی چیف نے ایک میجر جس پر ایک بچے کے اغوا اور تاوان کا مقدمہ تھا کی عمر قید کی سزا کی توثیق کر دی۔ میری جنرل صاحب سے استدعا ہے کہ وہ ریحان کے قتل پر متعلقہ حکام کو سخت احکامات جاری کریں تا کہ اسکے قاتلوں کو بھی سزا مل سکے۔ صرف جے آئی ٹی بن جانے سے کچھ نہ ہو گا۔ یہ بھی ایک بچہ ہے لیکن غریب کا ہے ورنہ تو اس ملک میں کوئی مائی کا لال نہیں جو معاشرے کے پسے ہوئے غریب بچے کو انصاف دلوا سکے۔

قندیل، عظمی، زینب، مشال، منیب، مغیث، ریحان اور ان جیسے ہزاروں بچے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ اپنا ٹائم کب آئے گا۔ ان بچوں کا ٹائم کب آئے گا۔ اس معاشرے کے بدحال طبقے میں نامساعد صورتحال میں پلنے والے بچوں کی نہ خواہشیں پوری ہوتی ہیں نہ خواب اور نہ ہی ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاتی ہیں جو ان کا پیدائشی حق ہوتا ہے۔

کل دو اچھی خبریں سننے کو ملیں۔ ایک تو عدالت نے قندیل بلوچ کے والدین کی قاتلوں کو معاف کر دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ درست کیا۔ اور دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ اسمبلی نے امل عمر میڈیکل بل پاس کیا ہے جس کے تحت اپنے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اس بات کے مجاز ہوں گے کہ وہ اجازت نامہ، تحریری نوٹ یا قانونی کارروائی کے بغیر فوری طور پر زخمی کا علاج شروع کریں گے اور لواحقین کو یہ کہہ کر علاج سے انکار نہیں کریں گے کہ پہلے پولیس میں رپورٹ کریں۔ اس سے قبل ہوتا یہ ہے کہ ہسپتال کی ایمر جنسی میں جب کوئی زخمی پہنچتا ہے تو ڈاکترز اس وقت تک اسے ہاتھ نہیں لگاتے جب تک قانونی لوازمات پورے نہ کر لیے جائیں اور اس چکر میں زخمی دم توڑ دیتا ہے۔

حکمرانوں سے اپیل ہے کہ خدارا اس ملک کے بچوں کا بھی کچھ سوچئے۔ ان کے لئے بھی قانون بنائیں تا کہ یہ در در کی ٹھوکریں نہ کھائیں۔ ایک روٹی یا چند ٹکوں کے لئے وحشیانہ تشدد، زیادتی و ظلم برداشت نہ کریں۔ بے رحمی کی موت نہ مارے جائیں۔ اس قوم کے بچوں کو ذندگی کی بنیادی ضروریات، تعلیم، صحت اور خوشیاں فراہم کرنا اس ریاست پر قرض ہے جسے ہم ریاست مدینہ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز