کشمیر، ادیب اور ضمیر

آوازہ

بات ارون دھتی رائے سے شروع ہوئی اور دور تک پہنچی۔ ہمارے دوستوں میں راؤ فضل کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خوب پڑھے لکھے ہیں، بات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی رائے کے اظہار میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ایک ایسے پاکستانی ہیں جن کے بزرگوں نے نظریے کی خاطر اپنے پرکھوں کی وراثت، مال اسباب اور قبریں چھوڑ کر نئے وطن کو ہجرت کی۔ وہ نظریاتی اعتبار سے خود کو بائیں بازو کے قریب سمجھتے ہیں لیکن ادھر کچھ دن سے یعنی جب سے مودی نے کشمیر پر شب خون مارا ہے، کہتے ہیں، مجھے راتوں کو نیند نہیں آرہی جس پر یاروں نے انھیں جماعتی وغیرہ کے لقب سے بھی سرفراز فرمایا لیکن واقعہ یہ ہے کہ تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں سے، ہر پاکستانی کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔

ہمارے اس دوست نے پرسوں پرلے روز ارون دھتی رائے کی گفتگو کی ایک ریکارڈنگ ارسال کی جس میں انھوں نے مودی کے افکار، نظریات اور اندازفکر کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ گفتگو تھی جس پر سوال پیدا ہوا کہ وہ دن کیا ہوئے جب ہمارا دانش ور ویتنام، فلسطین، افغانستان اور دنیا کے جس حصے میں بھی ظلم ہوتا تھا، آواز اٹھاتا تھا لیکن اب کیا ہوا کہ خود ہمارے اپنے جسم کے حصے اور خون کے رشتے یعنی کشمیر میں قیامت بیت جاتی ہے لیکن ہمارا دانش ور ٹس سے مس نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ کسی اجلاس میں شرکت کر لی، بیان دے دیا اور بس۔

اس پر ڈیگال کی یاد آئی اور ان کے تعلق سے سارتر کی جنھیں فرانس کے مرد آہن ڈیگال نے فرانس قرار دیا تھا اور اس کے باوجود قرار دیا تھا کہ سارتر ان کی مخالفت میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ سارتر کا ذکر ہو اور اپنے قیوم نظر کی یاد تازہ نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔ اصل میں ہوا یوں کہ قیوم نظر فرانس گئے تو سوچا کہ اگر سارتر سے نہ ملے تو کیا فائدہ یہاں آنے کا؟ سارتر اس زمانے میں الجزائر کی آزادی اور اس پر فرانس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ قیوم نظر سے انھوں نے کہا کہ میں ان دنوں اپنے ضمیر کی آواز سن رہا ہوں، لہٰذا ادبی سرگرمیوں کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ قیوم نظر نے اصرار کیا تو کہا کہ اچھا! ملاقات کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے، اگر تم یہ بتا سکو کہ الجزائر کی تحریک آزادی میں تمھارا کچھ حصہ ہے پھر میں دل و جان سے ملوں گا۔ قیوم نظر نے یہ بات سنی اور خوش ہوئے، پھر جوابی سوال کیا کہ الجزائر کے لیے میں نے کچھ کیا ہے یا نہیں کیا، یہ بعد میں بتاؤں گا، پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کشمیر کے لیے کیا کیا ہے؟ یوں یہ مکالمہ ان دو بزرگوں کی ملاقات کا بہانہ بن گیا۔ اس ملاقات میں کیا ہوا؟ اس سے ہمیں مطلب نہیں، مطلب اس سبق سے ہے جو ان ادیبوں کے انداز فکر سے ملتا ہے۔

یہ بات ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ رحمن فارس نئی نسل کے نمائندہ شاعر ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ اپنے اشعار بطور پوسٹ لگاتے ہیں تو اہل ذوق جی بھر کر اس کی توصیف کرتے ہیں۔ اس کے وہ حق دار بھی ہیں کیونکہ اپنی نسل کے شاعروں میں ان کا لہجہ، لفظیات، انھیں برتنے کا اسلوب اور مضامین بالکل نئے ہیں۔ وہ کسی روایتی موضوع پر بھی کچھ کہتے ہیں تو ان کے مزاج کی اپچ اسے پرکشش بنا دیتی ہے۔ حال ہی جب پاکستان اور پوری دنیا کشمیر میں بھارت کے مظالم پر سراپا احتجاج ہے، انھوں نے اپنی پوسٹ میں جو اشعار لگائے، ان کا تعلق انسانی زندگی کے ان رشتوں سے ہے جن کا تعلق ہمارے معمول کی زندگی سے ہے۔

میں یہ ہرگز نہیں سمجھتا کہ ہمارے اس نوجوان شاعر کا دل اہل کشمیر پر ڈھائے جانے والے مظالم پر دھڑکتا نہیں ہو گا لیکن گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ہمارے اہل شعر و ادب کا مزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ وہ خود کوسیاسی اور قومی معاملات سے لاتعلق بلکہ غیر متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ مزاج کیسے بنا؟ اس کی ایک مثال کا تو میں عینی شاہد ہوں۔

چند برس پہلے ملک میں ایک خاص نوعیت کا سیاسی بحران تھا۔ ایک نوجوان ادیب نے اس پر بے چینی محسوس کرتے ہوئے بعض فورمز پر اظہار خیال کیا تو اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین نے انھیں ڈانٹے ہوئے کہا کہ یہ تم کیا کرتے رہتے ہو، سیاسی معاملات سے ہمارا کیا تعلق؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادیب اپنے ضمیر کے مطابق ایمان داری سے اپنی رائے کا اظہار نہ کرے بلکہ ایک منافق کی طرح رائے چھپا کر رکھے اور ہر دور میں ہر طرح کی حکومت میں اپنے مفادات تلاش کرنے کے مواقع کھلے رکھے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج جب کشمیر میں انسانیت ایک عظیم المیے سے دوچار نظر آتی ہے، ہمارے ادیب کے ردعمل میں وہ شدت دکھائی نہیں دیتی جو کبھی ویت نام، فلسطین اور افغانستان جیسے معاملات میں دکھائی دیتی تھی۔

مجھے خوشی ہے کہ حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان نے اسلام آباد کے نہایت نمایاں اور ممتاز ادیبوں کو پلیٹ فارم مہیا کیا جس سے انھوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی ادیب کی آواز بلند کی۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ اکادمی کے ذمہ داران اور متعلقہ وزارت کے سیکریٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک جو خود بھی صاحب قلم ہیں، اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے اور کشمیر میں رونما ہونے والے المیے پر دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے ادیبوں کو متحرک کریں گے۔ مناسب ہو گا کہ اکادمی اس سلسلے میں شاعری اور نثری ادب کے قومی اور بین الاقوامی سطح کے مقابلے منعقد کرائے تاکہ لوگ اس معاملے کی مختلف جہتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کے تباہ کن اثرات کے متعلق جان سکیں۔

ملک کے اندر اور ملک سے باہر اس معاملے سے آگاہی کے لیے کانفرنسیں، سیمینار اور اجتماعات منعقد کرائے جائیں تاکہ دنیا بھر کے اہل دانش تک اہل کشمیر کی پکار ظلم کی داستانیں پہنچ سکیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ پاکستان کے ادیب، شاعر اور اکادمی مجموعی طور پر ایک ایسی فضا قائم کردیں جس کی مدد سے نہ صرف ملک کے اندر یہ مسئلہ صحیح معنوں میں اجاگر ہو بلکہ عالمی سطح پر بھی بیداری پیدا ہو جائے جس سے بھارت دباؤ محسوس کرے اور وہ عالمی رائے عامہ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجائے۔

ٹاپ اسٹوریز