کشمیر اور امریکی منصوبہ

خبرہونے تک

کشمیر اور امریکی منصوبہ

جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستان کا اوّل اور بنیادی مسئلہ ہے یا بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اولین ترجیح ہیں؟ یہ سوال اور بحث ایک سینئر صحافی نے چھیڑی ہے جنھیں ہم دانشور بھی کہتے ہیں اور جن کی جمہوری سوچ سے انکار نہیں کیا جا سکتا، یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے سخت خلاف ہیں اور ببانگ دہل اس پر سخت تنقید اور احتجاج بھی کرتے ہیں۔

اوّلین مسئلے سے متعلق سوال پر خود ان کا جواب تھا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، اصل مسئلہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستانی حکومت کا ایک معاملہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی انہونا فیصلہ ہے۔ لہٰذا اس پر توانائی ضائع کرنے کے بجائے ہماری توجہ بھارت کی مودی سرکار پر ہونی چاہیے کہ وہ کیا انہونی کرنے جا رہا ہے۔

گزشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ بھارت کشمیر کی حالیہ صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرے گا، خبریں آرہی ہیں کہ بھارت نے یہ کام شروع کر دیا ہے، بھارت ایک طویل عرصے سے کشمیر میں فوجی تسلط قائم کر کے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اب اس نے اپنے آئین کا غلط استعمال کر کے کشمیریوں کے وہ تمام حقوق بھی غصب کر لیے ہیں جو نہرو سے واجپائی تک سب تسلیم کرتے تھے اب حقوق کی اس آواز کو دبانے کے لیے بھارت عالمی سطح بھی سرگرم ہو گیا ہے۔

پاکستان نے عالمی عدالت میں جانے کا ایک اچھا اور بروقت فیصلہ تو ضرور کیا ہے لیکن عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور سے مسلم امہ کو متحرک کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کی بات کرنے والے ادارے اور ممالک کو بھی کشمیر کے مسئلے پر ہم نوا بنانا ہو گا، سب سے بڑھ کرامریکہ کے رویے اور کردار پر نظر رکھنی ہو گی کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔

ہم حال ہی میں ایک مرتبہ پھر دھوکہ کھا چکے ہیں کہ امریکی صدر کی ثالثی کی بات کو ہفتہ نہیں گزرتا ہے کہ مودی سرکار سب ملیا میٹ کر کے رکھ دیتی ہے، اس کے بعد امریکی حکومت مودی سرکار کے اس جارحانہ اور غاصبانہ اقدام کو اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ پھر ثالثی کی بات کرتے ہیں اور مودی اور عمران خان کو اپنا بہترین دوست بھی قرار دیتے ہیں۔

بعض حلقے امریکی سوچ کو امریکی دانشوروں کی گفتگو سے مماثلت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ کے منصوبے میں 2020 تک کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کے اس پر سیاحتی شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کرنا شامل ہے جہاں عالمی سیاحوں کی ضرورت کے مطابق ہوٹلوں کے علاوہ نائٹ کلب، ڈسکو کلب، بار بھی ہوں گے۔ اس طرح ایک طرف وادی لوگوں میں خوشحالی آئے گی، ساتھ ہی وہ مذہبی پابندیوں سے بھی آزاد ہوں گے، یوں کشمیر کی تحریک آزادی میں جو اسلامی عنصر غالب ہے وہ کم ہو جائے گا، کشمیر کو خودمختار لبرل جمہوری ریاست بنایا جائے گا جہاں انسانی آزادیاں ہوں گی اور کوئی مذہبی پابندی نہیں ہو گی یعنی ایک ماڈرن خطہ جو امریکہ کا دست نگر ہو گا۔

اس کے ذریعے امریکہ ایک طرف چین کی سرحد کے ساتھ آ بیٹھے گا اور دوسری طرف خطے کے ممالک پر بھی براہ راست اس کی نظر ہو گی، یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ناخوش نہیں کرنا چاہتا دونوں سے ان ہی کی جیسی بات کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان پر مزید بوجھ بڑھ جاتا ہے کہ اپنے سفارتی مشن کی رفتار تیز سے تیز تر کرے اور ملک کے اندر سیاسی ہم آہنگی اور استحکام کو یقینی بنائے۔

جہاں تک کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کا تعلق ہے وہ کشمیری عوام تیس سال سے کر رہے ہیں، اس میں بھی تیزی آ رہی ہے تاہم ایک خطرہ جس کا ذکر پچھلی تحریروں میں بھی کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مودی سرکار سے بعید نہیں کہ وہ پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرے، اس کے لیے ہمیں عسکری بنیاد پر چوکس رہنے کی ضرورت ہو گی اور شاید اسی لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہے تاکہ موجودہ ہنگامی اور نازک صورتحال میں عسکری تسلسل برقرار رہے۔

عسکری قیادت کی تقرری یا اس میں توسیع کے فیصلے خالصتا حکومتی نظم و ضبط کا معاملہ ہے جس پر حالات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے، جنرل باجوہ سے قبل بھی آرمی چیف کو توسیع ملتی رہی ہے، نہ صرف توسیع ہوئی بلکہ اس میں کمی بھی ہوتی رہی ہے، جنرل جہانگیر کرامت کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جنھیں قبل از وقت ریٹائر کیا گیا، اسی طرح جنرل پرویز مشرف کا معاملہ بھی لوگ نہیں بھولے، یعنی وزیراعظم جب چاہے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے، یوں بھی قیام پاکستان کے بعد فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کی کوئی میعاد نہیں تھی۔ جنرل ایوب خان دس سال سے زیادہ عرصہ فوج کے سربراہ رہے، ان کے بعد جنرل موسٰی کا دورانیہ بھی چھ سات سال رہا، چار سال کے جگ بھگ جنرل یحیٰی نے بھی وقت گزارا۔

1971 میں ذوالفقار علی بھٹو آئے انھوں نے جنرل گل حسن اور دیگر کو قبل از وقت ریٹائرڈ کر دیا 1973 کے آئین میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت تین سال رکھی گئی، ساتھ ہی وزیراعظم کے پاس تعیناتی اور ریٹائر کرنے کا اختیار بھی رہا، پاکستان نے اس تمام تر صورتحال کے با وجود چار فوجی ادوار بھی دیکھے جن کے نتیجے میں فوجی سربراہان گیارہ گیارہ سال تک اپنی پوزیشن پر براجمان رہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع ایک ایسے خاص موقع پر کی گئی ہے جب ملک کو واقعتا یکسوئی اور پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔

ٹاپ اسٹوریز