جوہری جنگ کا خطرہ

وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب میں دو نکات اہم ترین تھے، ایک پاکستان میں پھیلتی ہوئی مایوسی کے حوالے سے تھا اور دوسرا نکتہ دراصل عالمی قوتوں کے لیے ایک پیغام تھا اور یہ پیغام بالکل واضح تھا کہ بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تو یہ جوہری جنگ ہو گی۔ ایسا لگتا تھا کہ تقریر کا اصل مقصد یہی پیغام دینا تھا کہ اگر کسی کو یہ خیال ہے کہ پاک بھارت جنگ اس بار بھی شاید روایتی ہو گی تو اس کا یہ خیال غلط ہے۔ اب جب بھی جنگ ہو گی اس میں ایٹم بم استعمال ہو گا۔ وزیراعظم کے الفاظ تھے “یہ مسئلہ اگر جنگ کی طرف چلا گیا تو یاد رکھیں دونوں ملکوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں۔ کوئی یہ جنگ نہیں جیتے گا لیکن اس کا اثر پوری دنیا پر ہو گا”

فروری میں ہونے والی پاک بھارت جنگ ایک محدود پیمانے کی لڑائی تھی اور بھارتی جارحیت پر پاکستان کا ردعمل تھا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک موقع ایسا آیا کہ بھارت نے ایٹمی جنگ شروع کرنے کا اشارہ دیا، جواباً پاکستان نے بھی اس کا بھرپور جواب دینے کا پیغام بھیج دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا بھر سے ممالک دوڑتے ہوئے پاکستان پہنچے، رات بھر امریکہ، برطانیہ، چین سب اس کوششوں میں لگے رہے کہ معاملہ اب ٹھنڈا ہو جائے۔ بھارت کو پیچھے ہٹنا پڑا تب کہیں جا کر نیوکلیئر وار کا خطرہ ٹلا۔

اس وقت معاملہ صرف جوہری ہتھیاروں کی رینج کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں تابکاری کے اثرات کا بھی ہے، اس کے ساتھ ہی عالمی معیشت کو جھٹکا لگے گا، اس کا اثر ختم ہونے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔ عالمی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے اور اس معاشی پہیوں میں چین، امریکہ یورپ کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ اس صورتحال میں چین بھی برا راست اس جنگ سے متاثر ہو گا اور عالمی معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا۔

مودی کے متحدہ عرب امارات میں ایوارڈ ملنے پر پاکستان میں آنے والے شدید ردعمل پر وزیراعظم نے واضح کیا کہ اگر آج دنیا ساتھ نہیں بھی دیتی پھر بھی پاکستان اس مسئلہ کو اٹھاتا رہے گا۔ مودی کے مظالم سے جیسے جیسے دنیا آگاہ ہوتی جائے گی ویسے ویسے ان کی رائے بدلتی جائے گی اور یہی مودی کو ہار پہنانے والے کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے۔ اس وقت بھی عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے انسانی مسئلہ پر مسلسل رپورٹنگ کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ ادویات بروقت نہ ملنے سے کتنے افراد جان سے جا چکے ہیں، ٹوئٹر اور فیس بک پر بھارت کے مختلیف شہروں میں پڑھائی کے لیے موجود مقبوضہ کشمیر کے طلبا اپیلیں کررہے ہیں کہ مواصلات کے رابطے بند ہونے سے پتہ نہیں چل رہا کہ ان کے بیمار والدین کس حال میں ہیں۔

بھارت ذرائع مواصلات بند کر کے اور کرفیو نافذ کر کے جسقدر کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہا ہے اتنی ہی وہ آواز پہلے سے زیادہ زور سے سنائی دے رہی ہے، بھارتی ملٹری اسٹیبلشمنٹ  خود اپنے ہی ملک میں اب ان اقدامات کا دفاع کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

بی بی سی ہو یا سی این این یا پھر الجزیرہ یا عالمی وائر سروسسز سب کی توجہ اس عالمی سانحہ پر مبذول ہے جہاں ہر گزرتے روز کے ساتھ تاریخ کا ایک اور بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا غلط نہیں کہ امریکہ ہو یا برطانیہ یا پھر یو اے ای، یہ سب کشمیریوں پر ہونے والے جبر پر مودی سرکار سے سرعام سوال کرتے اور تنقید کرتے نظر آئیں گے اور یہ حالات کئی سال میں نہیں صرف چند ہفتوں میں ہوتے نظر آئیں گے۔

ٹاپ اسٹوریز