نیوکلئیر کا مشروم کلاؤڈ

ٹائم میگزین کے یکم جولائی 1946 کے شمارے کے ٹائٹل پر جاپان پر گرائے جانے والے نیوکلئر بم کے نتیجے میں بننے والے مشروم کلاؤڈ اور اسکے آگے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان اور اب تک کے سب سے ذہین سمجھے جانے والے انسان آئن اسٹائن کی تصویر لگائی گئی تھی۔ دھماکے کے بادل پر لکھا تھا E=MC2۔ یہ شمارہ ہیرو شیما کے واقعہ کے بعد کا ہے۔ جب آئن اسٹائن نے یہ شمارہ دیکھا تو وہ انتہائی رنجیدہ ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ انھوں نے ساری زندگی تشدد، فاشزم اور ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف بات کی، اس نے ہٹلر کی مخالفت کی، جرمنی کی شہریت چھوڑ دی، امریکہ کی شہریت اختیار کر کے ہمیشہ ایجنسیز کے ریڈار پر رہے لیکن کمبخت وقت بھی کیا کچھ دکھاتا ہے کہ اسی سائنسدان نے امریکہ کو نیوکلئر ہتھیار بنانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ جرمنی کے یہ ہتھیار بنانے کی خبر پھیلی ہوئی تھی اور خدشہ تھا کہ کسی وقت بھی اسے امریکہ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن آئن اسٹائن یہ نہیں جانتے تھے کہ امریکہ جرمنی سے پہلے ایٹم بم گرا دے گا۔ امن کے پرچارک اس سائنسدان کے سر پر وہ تصویر بم بن کے گری تھی جس کا شکوہ اکثر جگہوں پر وہ مختلف شخصیات سے کرتے رہے۔

آئن استائن کا شکوہ درست تھا کیونکہ 1939 میں امریکی صدر روز ویلٹ کو لکھا جانے والا خط آئن اسٹائن نے نہیں بلکہ ہنگیریئن فزیسسٹ لیو سزلڈ نے لکھا تھا اور دستخط آئن اسٹائن نے کئے تھے۔ لیو نے آئن اسٹائن کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ امریکی صدر کو یہ باور کرائے کہ جرمنی بہت جلد ایٹم بم بنانے والا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ جرمنی یوکلیئر پاور بن کر سب سے پہلے امریکہ پر بم گرا دے لہٰذا امریکہ کے لئے جوہری قوت بننا نا گزیر ہے۔ آئن اسٹائن ایک بین الاقوامیت کے حامی اور ترقی پسند انسان تھے۔ وہ اس پر ایک عرصہ ٹال مٹول کرتے رہے۔ انھوں نے ہٹلر کے لئے اس وقت استعمال ہونے سے انکار کر دیا تھا جب نازی جرمن کی تحریک میں ہٹلر نے اپنے سائنسدانوں سے اس چارٹر پر دستخط کرائے تھے جس کے تحت پروفیسرز خالص ہٹلر اور اس کے جرمنی کے لئے محب وطن ہونے کے ناطے کام کریں گے اور ان کو جو کہا جائے گا وہ کریں گے۔ تمام پروفیسرز نے تحریک کے لئے استعمال ہونا قبول کیا تھا لیکن آئن استائن نے اس وقت بھی اس دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

لیو جانتا تھا کہ یہ کام صرف آئن اسٹائن ہی کرا سکتا ہے کیونکہ آئن اسٹائن اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سا ئنسدان ہی نہیں بلکہ ایک بہت مقبول اور معزز شخصیت گردانا جاتا تھا۔ ایک ایسی شخصیت جس کو بڑے بڑے صدور اور وزیراعظم دعوت پر بلانا اپنی شان اور فخر سمجھتے تھے۔ اقتدار کے اعلی ایوانوں تک اتنی رسائی اور کسی کو حاصل نہیں تھی۔ بچے سے لے کر بڑے تک ان کے پیچھے آٹو گراف لینے کے لئے بھاگتے تھے۔ آئن اسٹائن کے خط نے صدر روز ویلٹ کو احساس دلایا کہ جرمنی جلد ہی ایک بہت طاقتور ہتھیار بنانے جا رہا ہے جو کہ ایک ایٹم بم ہے۔ جس سے صدر کو احساس ہوا کہ ایکشن لینا ضروری ہے ۔ صدر نے ایک ایڈوائزری کمیٹی آن یورینیم بنا دی۔ یہ ایڈوائزری کمیٹی آن یورینیم امریکی حکومت کی ایٹم بم بنانے کی کوشش کا آغاز تھی۔

اس کے بعد 1942 میں اسکو باقاعدہ ” مین ہٹن پراجیکٹ ” کا نام دیا گیا ۔ لیکن پروفیسر نے اس پراجیکٹ میں کام نہیں کیا کیونکہ فوج اور اس ٹیم نے ان کے بائیں بازو کے خیالات اور ایک سلیبرٹی اسٹیٹس کو سیکیورٹی رسک قرار دیا تھا۔ اس وقت تک ان کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کی دوست ایک روسی لڑکی تھی جس پر امریکیوں کو شدید شک تھا کہ وہ جاسوس ہے۔

شائد پروفیسر کو بعد میں ایٹم بم کے بنانے اور گرائے جانے کا بھی علم نہیں تھا۔ کچھ اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس چیز کا اعتراف کیا کہ نازی جرمنوں کے ایٹم ب بنانے کے ڈر سے ان کا اس خط پر دستخط کرنا غلط تھا۔

ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے بموں کے نتیجے میں تقریبا چار لاکھ ہلاکتیں فوری ہوئی تھیں اور اسکے بعد ایک عرصے تک لولی لنگڑی بیمار نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔

کیا عالمی طاقتیں اس وقت کا انتظار کر رہی ہیں جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی طرح برصغیر کے اوپر بھی جوہری دھماکے کا مشروم کلاؤڈ جنم لے گا؟ کشمیر کا مسئلہ اب وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سرحدوں پر جھڑپیں تو جاری ہیں ہی اور جہاں ایک بڑی باقا عدہ جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ جوہری جنگ کے خدشات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ آج کل ہندوستان کی حکومت اس جنگ کی ایسے بات کرتی ہے جیسے ٹافیوں گولیوں یا آئس کریم خریدنے کی بات ہو۔ آخر سپر پاورز سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے اس تنازعے کا حل کیوں نہیں نکال رہیں۔ کیا ان کو اطمینان ہے کہ جوہری جنگ نہیں ہو گی۔ لیکن خود ایٹم بم بنا کر ایک دوسرے پر گرانے والی عالمی طاقتیں یہ کیسے سوچ سکتی ہیں کہ تیسری دنیا کے یہ دو مما لک ایسا نہیں کریں گے۔ کشمیر پر تین جنگیں ہو چکیں اور چوتھی دہلیز پر کھڑی ہے۔

پاکستان امن کی جس حد تک کوشش کر سکتا تھا کر چکا۔ یہاں تک کہ بزدل ہونے کے طعنے بھی دیے گئے۔ جو ناقدین چاہتے ہیں کہ پاکستان جلد از جلد ہندوستان پر حملہ کر دے وہ جان لیں کہ ان میں جوہری دھماکے کے بادل کی جانب دیکھنے کی بھی تاب نہ ہو گی۔ یہ سب سے مشکل وقت ہے کہ معاشی بد حالی کی دلدل میں پھنسے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر پر مودی کی نقب زنی کی خبر ملتی ہے۔ مودی نے یہ وقت بہت سوچ سمجھ کر چنا ہے۔ پانچ سال گزر گئے، اگلے پانچ سال کے لئے وہ منتخب ہو چکا اور 2024 میں تیسری بار منتخب ہونے کے لئے وہ ہندوتوا کو اسقدر ہوا دے گا ہندوستان میں قوم پرستی کے نام پر ایسا غدر مچائے گا کہ لوگ اسے تیسری بار ووٹ دے کر منتخب کر کے دم لیں گے۔ سیکولر ہندوستان کے خاتمے کے بعد انتہا پسند انڈیا سے ایٹمی حملے کا خطرہ بعید از قیاس نہیں۔ پچیس روز ہو گئے کشمیر کے محاصرے کو۔ خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی جنگی صورتحال سے کم نہیں۔ پاکستان اب تک امن کا دامن نہیں چھوڑ رہا۔ آج ہونے والے پرامن احتجاج سے دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم نے امن کی آخری حد تک کوشش کی اور جنگ سے گریز کیا۔

ٹاپ اسٹوریز