اخلاقیات کہاں گئیں؟

اخلاقیات کہاں گئیں؟

جب آپ کسی حادثے کی یا کسی شخص کی ویڈیو بناتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں کہ لوگوں میں آگہی پھیلائیں اور معاشرے میں اخلاقیات کے فقدان کی نشاندہی کریں مگر کئی مرتبہ پاکستان میں ویڈیوز بنائی جاتی ہیں تو اس سے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور ان پر زمین تنگ ہو جاتی ہے۔

گزشتہ روز لاہور کے ایک مال کے سنیما گھر میں کچھ لڑکے لڑکیوں کی نازیبا حرکات کرتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیوز لیک ہو گئیں۔ کیمرے مانیٹر کرتے ہوئے شخص نے موبائل سے ویڈیوز بنائیں اور پورے سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیلا دیں۔

اب پھیلانے والے نے یہ نہیں سوچا کہ ان ویڈیوز میں لڑکوں اور لڑکیوں کے چہرے صاف پہچانے جا سکتے ہیں۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ وہ اس معاشرے میں رہتا ہے جہاں پسند کی شادی کرنے پر باپ بھائی اپنی اولاد کو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ضمیر نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ جب لڑکے لڑکیوں کے والدین کے پاس یہ ویڈیوز پہنچیں گی تو وہ ان کے ساتھ کیا کریں گے؟ کل کو ان لڑکیوں کا کیا مستقبل ہو گا؟

ویڈیوز لیک کرنے والے نے ایک بار بھی یہ نہ سوچا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی جانوں کے ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیں گی۔ اور آفرین ہے ان لڑکوں اور لڑکیوں پر جنہوں نے خود اپنے بارے میں نہ سوچا۔ جنہوں نے اس پیغام کو بھی نہ دیکھا جو وہاں سنیما کی دیواروں پر چسپاں کیا گیا تھا کہ ”نائیٹ وژن کیمرے ہالز کے اندر سیکیورٹی کے لیے لگائے گئے ہیں“۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جہاں ایسی ویڈیوز لیک کی گئی ہوں۔ اس سے پہلے اسلام آباد سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمروں سے کھینچی گئی تصاویر جن میں جوڑے گاڑیوں میں بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئیں اور شہریوں میں ان کی پرائیویسی کو لے کر تشویش پیدا ہو گئی۔ سیف سٹی پروجیکٹ پر زبردست تنقید اس وقت ہوئی جب ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے معاملے میں یہ کیمرے کچھ کام نہ آئے اور لوگوں نے دیکھا کہ جس مقصد کے لیے یہ کیمرے نصب کیے گئے ہیں اس کے علاوہ سب کام ان سے لیے جا رہے ہیں۔ خواتیں کی تصاویر بھی ان کیمروں سے لیک کی گئیں جس کے بعد 4 افسران کو نوکری سے معطل کر دیا گیا۔

شہروں کو اسمارٹ سٹی یا سیف سٹی بنانا ہے تو ڈیٹا پروٹیکشن کے سخت اور جامع قوانین بنانا ہوں گے ورنہ مانیٹر پر بیٹھا عملہ لوگوں کے ڈیٹا کو استعمال کرے گا، ان کی گاڑیوں کے نمبرز سے انہیں بلیک میل کرے گا اور شہری محفوظ ہونے کی بجائے مزید غیر محفوظ ہو جائیں گے۔

ویڈیوز لیک ہونے کا ایک اور کیس سامنے آیا تھا جہاں انٹرنیٹ کیفے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی ایسی ویڈیوز لیک کر دی گئی تھیں۔

لاہور میں جو ہوا اخلاقی طور پر ان کی تو غلطی ہے ہی جو ان ویڈیوز میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن اس کی زیادہ زمہ داری ان پر ہے جو سیکیورٹی کے بجائے یہ ویڈیوز لیک کرنے میں مگن تھا۔ قانون میں اگر دیکھا جائے تو یہ ”بریچ آف پرائیوسی“ ہے۔ اور سنیما کے عملے پر متاثرہ لڑکے اور لڑکیاں مقدمہ درج کر سکتے ہیں اور لیک کرنے والے کو 2 سے 7 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ وہ کبھی سامنے نہیں آئیں گے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ سب ایک عوامی جگہ میں ہو رہا تھا تو یہ بریچ آف پرائیویسی نہیں ان کو یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ کسی کی بغیر اجازت کے تصویر کھینچنا یا ویڈیو بنانا غیر قانونی ہے، اسی طرح یہ ویڈیوز بھی ان لڑکے اور لڑکیوں کی اجازت کے بغیر پھیلانا غیر قانونی ہے۔

پاکستان میں اور بہت سے ممالک کی طرح کپڑے پہننے کے، پبلک میں اٹھنے بیٹھنے کے مختلف قوانین ہیں جن کا اطلاق شہریوں پر ہوتا ہے اور پھر کچھ شہریوں کی اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سوچیں کہ وہ کس جگہ کیا کر رہے ہیں۔

اگر ہم کپڑے پہننے کے قوانین کی بات کریں تو فرانس میں سینے اور پرائیویٹ حصوں کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ قطر میں کندھے اور گھٹنے ڈھانپنا۔ سوڈان میں خواتین کا موزے پہننا ضروری ہے۔ برطانیہ میں اگر کوئی جنسی فعل کرتے ہوئے پکڑا گیا تو قانونی طور پر مسئلہ میں پڑ سکتا ہے۔ ویسے ہی پاکستان میں بھی ایسا کچھ آپ کھلے عام نہیں کر سکتے لیکن یہ تمام باتیں قانون کی ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک معاشرتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں پسند کی شادی کرنے میں، جلدی شادی کرنے میں یا دوسری شادی کرنے میں لوگوں کو ان کے خاندان کی طرف سےاس قدر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر خود شادی کرنا اس قدر دشوار بنا دیا گیا کہ لوگوں کو ڈیٹ مارنا قدرے آسان لگتا ہے۔ حالانکہ اس میں بھی مشکلات اچھی خاصی ہیں۔ اگر آپ کسی لڑکے یا لڑکی کے ساتھ پارک میں یا گاڑی میں بیٹھے ہیں تو پولیس ہراساں کرنے پہنچ جائے گی اور سب سے پہلے نکاح نامہ مانگے گی، نہ ہونے پر اچھے خاصے پیسے اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو کئی موقعوں پر لڑکی کا مطالبہ بھی رپورٹ ہوا ہے۔

ان ویڈیوز میں دیکھے جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں پر تنقید کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ اس کالم کو پڑھنے کے بعد یہ گننا شروع کر دیں کہ آپ کے کتنے تعلقات رہےاور مخالف جنس کے کتنے پسند آئے تو یقین جانیں آپ کو یاد آجائے گا کہ بنانے والے نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے کشش پیدا کی ہے اور ایک دوسرے کی طرف مائل ہونا قدرتی عمل ہے۔ سوچنا صرف یہ ہے کہ اس قدرتی عمل کو مہذب اور قابل قبول کیسے بنایا جائے؟

کیسے جوان لڑکے اور لڑکیوں کو سمجھایا جائے کہ ہر چیز اور  کام کا ایک وقت اور طریقہ کار مذہب اور معاشرتی طور پر طے کیا گیا ہے کیونکہ ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں جنگل میں نہیں۔

ٹاپ اسٹوریز