قصور ہمارا ہے

وقت كرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

قابل اجمیری كا یہ شعر گویا ہمارے معاشرے كی مكمل عكاسی كرتا ہے۔ ہر روز ایک نیا حادثہ ہوتا ہے، ہر روز اس پر گفتگو ہوتی اور روزانہ ہی كی بنیاد پر ان حادثوں كو بھلا دیا جاتا ہے۔ مگر كبھی ایسا نہیں ہوا كہ سنجیدگی سے ان كے بنیادی اسباب پر غور كیا جائے اور پھر معاشرے میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جن کے باعث حادثے رونما نہ ہوں۔

گزشتہ روز بھی ایک حادثہ ہوا جس میں لاہور كے ایک مال كے سنیما گھر  كی كچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر آگ كی طرح پھیلیں۔ ان ویڈیوز میں سنیما گھر میں بیٹھے كچھ لڑكے لڑكیاں نہایت نازیبا حركات كرتے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے۔ ویڈیوز چونكہ نائٹ ویزن كیمرے سے بنائی گئی تھیں اس لیے ان كے چہرے كافی حد تک واضح تھے۔ صحافت سے تعلق ركھنے كی وجہ سے یہ ویڈیوز مجھ تک بھی پہنچیں اور جب میں نے انہیں دیكھا تو دل ڈوب سا گیا۔

سوشل میڈیا پہ نظر دوڑائی تو وہاں ایک بحث چھڑی ہوئی تھی۔ كوئی یہ كہتا نظر آیا كہ قانونی طور پر ان ویڈوز كا لیك كیا جانا بریچ آف پرائیویسی كے زمرے میں آتا ہے۔ اور یہ بات قانونی طور پر بالكل درست ہے کہ بغیر اجازت كسی كی تصویر اتارنا یا ویڈیو بنانا اور ان كو پھیلانا ایک سنگین جرم ہے جس كی سزا كئی سال قید ہے۔

دوسری طرف ان لوگوں كی بھی رائے سامنے آئی جن كا موقف یہ تھا كہ ہمارے معاشرے كی كچھ اقدار ہیں اور ان معاشرتی اقدار كی پیروی كرنا سب كے لیے ضروری ہے ورنہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا۔ چونكہ سنیما ایک عوامی جگہ ہے اس لئے وہاں پر ایسی حركتیں كرنے والوں كی سزا یہی ہے كہ ان كی نشاندہی ہو۔ اس طرح اور لوگوں میں ڈر پیدا ہوگا اور لوگ ایسی حركت كرنے سے پہلے سوچیں گے۔

ان دو نظریات میں سے كونسا صحیح ہے اور كونسا غلط ہے، میں یہ فیصلہ كرنے نہیں بیٹھا لیكن ہاں، ایک بات جو كہ مجھے پریشان كر رہی ہے وہ یہ ہے كہ اس پورے واقعے كے پیچھے كیا عوامل تھے اور حقیقت میں قصوروار ہے كون؟

میری ناقص رائے میں قصور بحیثیت معاشرہ، ہم سب كا ہے۔ جی ہاں، قصور ہم سب كا ہے۔ ہم سب، جو كہ نہ اس سنیما میں گئے، نہ وہ حركتیں كیں، نہ ہم نے ان كی ویڈیو بنائی، نہ ویڈیو لیك كی، نہ وہ ویڈیو ڈاؤن لوڈ كی۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی اس حادثے كی مكمل ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔

ہمارے مذہب نے مرد اور عورت كے رشتے اور اس رشتے كو بنانے كے تمام اصول واضح كر دیے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتا دیا گیا ہے كہ ایک ایسا معاشرہ كیسے تشكیل دیا جاتا ہے جہاں جنسی ہیجان انگیزی كم سے كم ہو۔ لیكن جب اصولوں كو بالائے طاق ركھ كر معاشرے پنپتے ہیں تو پھر ایسے حادثے ہوتے رہتے ہیں۔

سب سے پہلا قصور اس معاشرے میں رہنے والے والدین كا ہے كہ جنہوں نے اپنی اولادوں كو مخالف جنس كی كشش اور ان سے تعلق ركھنے كے آداب سكھانا گوارا ہی نہیں كیا۔ انہوں نے شاید یہ سوچا كہ ہم ایسی باتیں كرتے ہوئے اچھے نہیں لگیں گے اور پھر یہ بچے جب بڑے ہوں گے تو خود ہی سب كچھ سیكھ جائیں گے۔

پھر قصور میڈیا كا ہے جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔ روزانہ كی بنیاد پر ایسے ڈرامے، فلمیں، گانے دكھائے جاتے ہیں كہ جن كا مقصد صرف اور صرف جنسی ہیجان انگیزی بڑھانا ہوتا ہے۔

گیم آف تھرونز دیكھ كر ہر عمر كے لڑكے لڑكیاں اس پر ایسے تبصرہ كر رہے ہوتے ہیں جیسے اس وہ ایک مكمل فیملی ڈرامہ ہو۔ ہم سب جانتے ہیں كہ اس سیریز كی ہر قسط میں كس قدر غلاظت ہے۔ گانوں كی شاعری سنیں تو صرف اور صرف جنسی كشش ہی موضوع ہوتی ہے۔ الفاظ ایسے ہوتے ہیں كہ سن كر شرم سی آتی ہے۔ I am in love with your body  اس كی صرف ایک مثال ہے جو ہر شخص گنگنا رہا ہے۔ پھر سونے پر سہاگہ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہر ایک لڑكے اور لڑكی كے ہاتھ میں ہے جہاں یہ واہیات مواد كثرت سے موجود ہے اور اس كو دیكھنا نہایت آسان ہے۔ اب جو كچے ذہن روزانہ ہی اس مواد كو دیكھ رہے ہوں ان كے جذبات بھڑكنا ایک فطری عمل ہے۔

پھر قصور ان لوگوں كا جنہوں نے شادی كو ایک نہایت مشكل كام بنا ڈالا۔ پسند كی شادیوں كو روكنا، ذات پات كی بنیاد پر رشتوں كو مسترد كرنا اور ایسی كئی وجوہات ہیں جن كی بنیاد پر اس معاشرے میں ناجائز تعلق ركھنا آسان مگر نكاح كرنا نہایت مشكل ہو گیا ہے۔

پھر قصوروار وہ طبقہ بھی ہے جو جلدی شادی كرنے كو مكمل طور پر جرم قرار دیتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے كہ جلدی شادی سے كئی مسائل بھی جنم لیتے ہیں لیكن اس كا مطلب یہ نہیں كہ ہر وہ شادی غلط ہے جو اٹھارہ سال كی عمر سے پہلے كی جائے۔ یہ نہ تو مذہبی طور پر درست ہے اور نہ ہی معاشرتی طور پر۔ دنیا كے كئی ترقی یافتہ ممالک ایسے ہیں جہاں قانونی طور پر شادیاں اٹھارہ سال سے پہلے كی جا سكتی ہیں۔ ان میں امریکہ کی کئی ریاستیں بھی شامل ہیں۔

پھر قصور اس طبقے كا بھی ہے جس نے اس معاشرے كو ایک ایسا معاشرہ بنانے كی كوشش كی جہاں مرد اور عورت كے درمیان كسی قسم كا كوئی رابطہ نہ ہو۔ ان لوگوں كا بس چلے تو مردوں اور عورتوں كے لیے الگ الگ سڑكیں، شہر، ملک بنا دے بلكہ الگ الگ سیارے بنا دے!! یہ تقسیم كسی طور پر مذہبی اور معاشرتی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے بلكہ جب اس طرح غیر فطری طور پر مردوں اور عورتوں كو الگ كیا جاتا ہے تو پھر ان دونوں میں كشش اور زیادہ بڑھتی ہے اور پھر معاملات مزید خطرناک ہو جاتے ہیں۔

پھر قصور اس طبقے كا بھی ہے جو لبرل ازم كے نام پر مردوں اور عورتوں كے درمیان ہر قسم كے معاشرتی اور مذہبی اصولوں كو بیكار گردانتا ہے اور یہ مانتا ہے كہ جس كا جو جی چاہے، جہاں جی چاہے كرے، اس سے كوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے معاشرے میں اپنی من پسند اقدار كو فروغ دینے كی كوشش كرتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے كہ ان كے فلسفے كے زیر اثر كئی لوگ پھر ہر قسم كی آزادی كو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

اب آپ خود سوچیں كہ آپ ان تمام طبقوں میں سے كونسے طبقے میں شامل ہیں۔ آپ كو اپنا قصور خود سمجھ آجائے گا۔

رہی بات ان نوجوانوں كی جو ان حركات میں ملوث تھے، ان كا قصور بس اتنا ہے كہ انہیں بغیر كسی تربیت اور حفاظتی سازوسامان كے سمندر میں تیرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے، ڈوبنا ان كا مقدر ہی ہوگا۔

اور ہاں، اب ان لوگوں کی بات جنہوں نے ویڈیو لیک كی۔ پہلی بات تو یہ كہ جب یہ ویڈیو بن رہی تھی تو مانیٹرنگ كرنے والے لوگ كیا كر رہے تھے؟ كیا وہ اپنی اسكرین پر ان نوجوانوں كو دیكھ كر ہنس رہے تھے اور شوق سے ان كی حركات دیكھ رہے تھے؟ اگر ایسا ہے تو فرسٹریشن كی اس سے بڑی مثال كیا ہو گی۔ ایک اور سوال یہ بھی ہے كہ جب سنیما ان حركات كے لیے نہیں ہے تو پھر انہوں نے اس وقت كوئی ایكشن كیوں نہیں لیا؟ کیا یہ سنیما جانتے بوجھتے ہوئے ان مقاصد کے لیے استعمال تو نہیں ہو رہا تھا؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر اس کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیئے۔ ایک اور پہلو یہ کہ جن لوگوں نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر لیک کی تو بھی یہ سوچے سمجھے بغیر ڈالی كہ اس كا نتیجہ كیا ہو گا۔ یہاں پھر بات كم عقلی سے بھرپور رویے كی ہے۔

اس طرح كے كئی واقعات ہمارے سامنے ماضی میں بھی آئے۔ انٹرنیٹ كیفے اسكینڈل، اسلام آباد میں سیف سٹی كیمروں كا اسكینڈل وغیرہ، پھر غیر شادی شدہ جوڑوں كے بھاگنے كی خبریں بھی عام ہیں، پسند كی شادی كرنے والے آئے دن قتل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کراچی کے اسكول كا لڑکا اور لڑکی بھی سب كو یاد ہوں گے جنہوں نے محبت کے نام پر خود کو ختم کر لیا۔ لیكن مسئلہ یہ ہے كہ ہم سب كچھ بھول گئے۔ ہم تو قصور میں ہونے والا وہ واقعہ بھی بول گئے جس میں بچوں كی نازیبا ویڈیوز بنائی اور بیچی جا رہی تھیں۔ تف ہے ہمارے یادداشت پر۔

اب اس واقعے كے نتیجے میں ہو گا كیا؟ میڈیا پر چند روز تک ٹاک شوز ہوں گے پھر كوئی نیا موضوع یا نیا حادثہ ہو جائے گا۔ لاہور كا سنیما شاید چند روز كے لیے بند ہو جائے، اس كے بعد پھر وہاں بھی زندگی رواں دواں ہو جائے گی۔ ویڈیو لیک كرنے والوں میں سے كچھ کی گرفتاریاں ہوں گی مگر چند روز بعد وہ ضمانت پر رہا ہوں گے۔ والدین چند روز كے لیے پریشان ہوں گے كہ آج كی نوجوان نسل كہاں جا رہی ہے، کئی نوجوان چند دن یہ سوچیں گے كہ یار اب تو ڈیٹ مارنے سنیما بھی نہیں جا سكتے، كچھ لڑكیوں پر باہر جانے كی پابندی لگے گی، اور ہاں شاید ویڈیو میں نظر آنے والے یا ان کے والدین میں سے کچھ خودکشی کر لیں گے مگر اس سب کے چند دن بعد ۔۔۔۔۔۔ وہی چل سو چل۔

ٹاپ اسٹوریز