تاریخ کا تازیانہ

تاریخ کا تازیانہ

لاکھوں سال سے انسان اپنی بقا کی جنگ لڑتا آیا ہے۔ صنعتی اور سائنسی انقلاب کی چند صدیاں ایک طرف رکھ دیں تو نسل انسانی مسلسل بھوک، بیماری، وبا اور جنگ جیسے خوفناک مسائل سے نبرد آزما رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار لوگ بھوک کے ہاتھوں کم اور بسیار خوری سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں۔ وبائیں بھی بہت حد تک قابو میں آ چکی ہیں جبکہ جنگوں کی روایت بھی قدرے کم ہو رہی ہے۔

بقا کی جدوجہد یقیناً اعصاب شکن تھی اور اس پر مستزاد خواہشوں اور حقائق کے درمیان موجود فاصلے جنہوں نے اذیت کے مزید در کھولے رکھے۔ ایک پرسکون زندگی جس میں فرائض اور ذمہ داریاں کم ہوں اور پسندیدہ مشاغل کے لیے وقت بہت زیادہ میسر ہو، عام انسان کو کبھی میسر نہیں ہوئی۔

بھوک اور وباؤں سے نجات کے بعد انسان نے ایک مثالی زندگی کا خواب دیکھنا شروع کر دیا جسے اپنے من پسند انداز میں گزارا جا سکے، جس میں خود کے لیے ڈھیروں وقت ہو اور بنیادی ضروریات اور ایک حد تک آسائشوں کا سامان وافر مقدار میں میسر ہو۔

ماضی میں یہ مثالی زندگی کسی حد تک اشرافیہ کو نصیب رہی ہے جس کی قیمت غلاموں نے ادا کی۔ کروڑوں غلام زندگی کا ہر لمحہ تکلیف اور اذیت میں گزار کر ایک محدود طبقے کے لیے آسائشیں فراہم کرتے رہے۔ پھر مشینوں کی آمد ہوئی تو غلامی جیسے ادارے سے نجات مل گئی۔ لیکن انسان آج بھی اپنی تمام عمر خواہشوں کے سراب کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور جب آخری وقت پر حساب سودوزیاں کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ چند معمولی خواہشوں کو چھوڑ کر کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا۔

شاید انسان اس تمام تر عرصے میں اپنا وجود برقرار رکھتے اور اپنی زندگی بہتر بناتے تھک چکا تھا اور اسے سستانے کے لیے شجر سایہ دار اور وقت کی ڈھیروں اشرفیاں درکار تھیں۔ اس کی روح اب مزید اذیتوں کا سامنا نہیں کر سکتی تھی، اس کا جسم زندگی کی تاریک کان سے کوئلے نکالتے نکالتے تھک چکا تھا اور شاید ہتھیار ڈالنے کو ہی تھا کہ تاریخی قوتیں اس کی مدد کو آن پہنچیں اور ٹیکنالوجی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ اس سے معیار زندگی بہتر ضرور ہوا تاہم ابھی بھی خواہشوں اور ان کے حصول کے بیچ بہت بڑا فاصلہ موجود ہے۔

کبھی کبھی احساس ہوتا ہے جیسے اس کی تھکی ہاری روح خود کو مٹانے پر تل گئی ہے۔ انفرادی سطح پر خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بکثرت وجود میں آ چکے ہیں۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بھی اگر منزل کا کوئی نشاں نظر نہ آئے تو مسافر ترک سفر پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ انسان بھی اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے مگر اس کی امیدیں جگانے کے لیے ایک بار پھر نیا انقلاب وجود پذیر ہو رہا ہے۔

اس وقت مصنوعی ذہانت کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب مشینی غلام زیادہ تر ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور ہر انسان وقت کے چمکتے سکوں کو اپنی منشا کے تحت خرچ کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ یہ اس سے بہتر زندگی ہو گی جو ماضی میں اشرافیہ اور بادشاہوں کو میسر رہی ہے کیونکہ انہیں اپنی آسائشوں کی قیمت ظلم، تشدد، قتل وغارت گری اور ان سے جڑی پریشانیوں کی شکل میں ادا کرنی پڑتی تھی جبکہ اب ان تمام مسائل کے بغیر یہ سب سہولیات میسر ہو سکتی ہیں۔

غالب امکان ہے کہ مستقبل قریب میں کاروبار جیسے عام شعبے سے لے کر تحقیق و تخلیق کا بیشتر کام بھی روبوٹس کرنے لگیں گے اور ہر شخص کو ایسے وسائل اور وہ فرصت میسر ہو گی جس کی حسرت ہمارے اجتماعی وجود کے ہر ریشے میں سرایت کر چکی ہے۔ موت کے عفریت کی شکست بھی سامنے افق پر نمودار ہو رہی ہے اور ممکنہ طور پر اگلی چند دہائیوں میں ایک طویل عمر ہر کس و ناکس کی دسترس میں ہو گی۔

اس مرحلے پر یہ سوال ذہن کے دریچوں میں بار بار ابھرتا ہے کہ اگر جنت نظیر زندگی کے حصول میں فقط چند نسلوں کا فاصلہ باقی ہے تو کیا یہ بہت غیر منصفانہ بات نہیں کہ لاکھوں سال سے اربوں لوگ اذیتوں کے تلاطم خیز سمندر میں ڈوبتے اور ابھرتے رہے اور ہزاروں نسلیں اپنے لہو سے جس کھیت کی آبیاری کرتی رہیں، اس کا ثمر مستقبل کے اس انسان کو نصیب ہو گا جو شریک سفر ہی نہیں تھا؟ یہ تاریخی قوتوں کا جبر ہے یا تقدیر کا تازیانہ، کچھ خبر نہیں۔۔ بس سوال ہی سوال ہیں جو دل و دماغ میں حشر بپا کیے رکھتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز