مارنا کتھوں سکھیا اے

’’اک گل پوچھاں، مارو گے تے نہیں، تسی لوکاں نوں مارنا کتھوں سکھیا اے‘‘ پنجابی کے یہ الفاظ شاید صلاح الدین کے آخری الفاظ ثابت ہوئے اور اس کے بعد پنجاب پولیس نے صلاح الدین کو یہ بھی بتا دیا کہ انھوں نے صرف مارنا ہی نہیں بلکہ جان سے مارنا بھی سیکھ رکھا ہے۔۔۔ کیسے؟ یہ تو صلاح الدین ہی بتا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں اور اگر آپ میں سے کوئی اس سوال کا جواب جاننے کی تمنا رکھتا ہے تو اپنی ذمہ داری پر پنجاب پولیس سے پوچھ سکتا ہے مگر یہ جان لے کہ نا مارنے کی گارنٹی پنجاب پولیس نے صلاح الدین کو بھی دی تھی ۔۔۔ ہاں مارا نہیں بس جان سے مار ڈالا۔

چند روز قبل میڈیا پر اے ٹی ایم کارڈ چوری کرتے ہوئے ایک شخص کی ویڈیو نے کافی توجہ حاصل کی جس میں وہ بوتھ میں لگے کیمروں کو دیکھ کر منہ چڑا رہا تھا، عام طور پر اس طرح کی واردات کرنے والے لوگ اپنے چہرے کو اچھی طرح سے کپڑے یا ہیلمٹ سے ڈھانپتے ہیں تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے، تو کیا یہ پاگل ہے یا پھر پاگل ہی ہے؟ یہ تو نہیں بچتا ۔۔۔ پکڑا جائے گا، ویڈیو دیکھنے کے بعد یہی الفاظ میرے ذہن میں بھی گردش کر رہے تھے۔

بہرحال اگلے روز معلوم ہوا کہ جناب جدید ترین تفتیشی طریقے استعمال کر کے فیصل آباد میں اے ٹی ایم کی تذلیل کرنے والے ملزم کو رحیم یار خان پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، اس کا نام صلاح الدین ہے اور وہ کامونکی گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے۔ بہرحال قصہ مختصرپنجاب پولیس کی تفتیش میں ملزم نے کردہ نا کردہ سب گناہوں کا اقرار کیا۔۔۔۔اور غلطی یہ کی کہ پولیس حراست میں دوران ویڈیو سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھا۔ بس پھر کیا تھا دوسری ویڈیو پہلی سے زیادہ وائرل ہوئی شاید آج اگر مرحوم کا کوئی یو ٹیوب چینل ہوتا تو ان وائرل ویڈیوز کے لاکھوں کلکس سے ملنے والی آمدن، پولیس کو بطور نذرانہ دے کر اپنی جان چھڑا سکتا تھا۔ مگر افسوس اس کو جان سے مار کر پنجاب پولیس کے شیرجوان اپنی آمدن سے محروم ہو گئے۔

ماورائے عدالت قتل یا حراست میں ہلاکتیں پنجاب پولیس کے لیے نئی نہیں۔ صحافت کے شعبے میں آنے سے قبل میں نے ایک لطیفہ سن رکھا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے سامنے دوران تفتیش ہاتھی نے بھی یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ چیونٹی ہے۔ اس جدید سائنسی طریقہ تفتیش کی روشن مثال یہ دیکھنے کو ملی کہ صرف ایک ہفتہ کے دوران پنجاب پولیس نے تین افراد کو اپنے نہ ختم ہونے والے تفتیشی تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک روزہ مختصر دورہ لاہور میں آئی جی پنجاب عارف نواز سے پولیس کے بگڑے ہوئے معاملات پر خوب تفتیش کی اور انھیں وارننگ دی مگر وہ پنجاب پولیس ہی کیا جو سدھر جائے، ابھی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس نے پریس کانفرنس میں پولیس اصلاحات کے بڑے بڑے دعوے کیے ہی تھے کہ اسی رات مبینہ چوری کے شبہ میں لاہور پولیس نے دو کمسن بچوں کے باپ عامر مسیح نامی نوجوان کو فون کر کے تھانے بلایا اور پھر مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد وہ پولیس حراست میں دم توڑ گیا۔

اور تو اور چند روز قبل لاہور میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاوس میں قائم پولیس کے غیر قانونی ٹارچر سیل سے برآمد ہونے والا امجد بھی مبینہ پولیس تشدد برداشت نا کر سکا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کچھ عرصہ پہلے پنجاب پولیس کی نگرانی اور اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے تھانوں اور حوالاتوں میں کیمرے لگانے کا پراجیکٹ شروع کیا گیا مگر اعلی افسران کی نا اہلی کے باعث کروڑوں روپے مالیت کا یہ منصوبہ اپنی افادیت کھو بیٹھا، صرف لاہور شہر کے 84 میں سے 21 تھانوں میں کیمرے خراب ہو گئے یا کر دیے گئے، انہی خراب کیمروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرون شہر کے اکبری گیٹ تھانے کی حوالات میں بچی سے زیادتی کے ملزم نے پھندہ لے کر مبینہ طور پر خودکشی کر لی، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس کے اہل خانہ جسم پر موجود تشدد کے نشانات دکھا کر پولیس پر قتل کا الزام لگاتے رہے۔

کیمرے خراب تھے یا ان کو خراب کیا گیا اس کا آج تک پنجاب پولیس اپنی تفتیش میں سراغ نہیں لگا سکی یا شاید لگانا نہیں چاہتی، میں تو اپنی جان کی امان چاہتے ہوئے صلاح الدین کی طرح سوال پوچھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔ پنجاب کے انسانی حقوق کے وزیر اعجاز عالم نے تسلیم کیا کہ پولیس کے مجرمانہ مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے، منسٹر صاحب نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پولیس اصلاحات کے اجلاس میں آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز کی کارکردگی پر مایوسی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں شٹ اپ کال دی۔۔۔ مگر فائدہ کیا ہوا؟

اسی روز اپنے آئی جی کی بےعزتی کا بدلہ لینے کیلیے پولیس نے ایک اور بے گناہ عامر مسیح کو اپنی سائنسی تفتیش کے دوران مار ڈالا۔ پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے افراد کا میڈیکل ڈاکٹرز کا بورڈ کرتا ہے جو ان پر تشدد ہونے یا نا ہونے کی رپورٹ دیتا ہے، بہرحال جس سائنسی طریقے سے تشدد کیا جاتا ہے وہ ظاہری طور پر تو ہر عام و خاص کو نظر آتا ہے مگر میڈیکل میں سائنسی کرشمات کی بدولت اس کو التواء میں رکھ لیا جاتا ہے۔

پی ٹٰی آئی کے ایک سالہ دور حکومت میں پنجاب میں اب تک چار آئی جیز کو تعینات کیا جا چکا ہے اور یہ موجودہ آئی جی کیپٹن (ر) عارف نواز کا بحیثیت انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب میں دوسرا دورانیہ ہے، ان سے پولیس اصلاحات کے حوالے سے بہت سے امیدیں ابھی بھی وابستہ ہیں۔ اسی طرح ایڈیشنل آئی جی پنجاب طارق مسعود یاسین بھی اپنے طور پر پولیس میں جدید اصلاحات کے لیے کوشاں ہیں اور نت نئے پولیس ٹریننگ سلیبس بھی متعارف کرا رہے ہیں مگر پولیس حراست میں ہلاک ہونے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بہت سے ان گنت سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں جن کا جواب خود پولیس افسران اپنی کارکردگی کے ذریعے ہی دے سکتے ہیں اور اپنی جان عزیر رکھتے ہوئے میں تو سوال کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز