نازو شنواری کا المیہ

“میرا نام سمیرا صفدر ہے، جائیداد کے لیے میر ے خاوند کو قتل کر دیا گیا ہے، میری اور میرے بچوں کی جان کو شدید خطرہ ہے، آپ میری مدد کریں۔ “

تقریباً دو ماہ قبل مجھے یہ کال موصول ہوئی، دوسری طرف جو خاتون تھیں ان کی آواز سے ظاہر تھا کہ وہ بہت گھبرائی ہوئی ہیں۔ میں نے انھیں تسلی دی اور ان سے کہا کہ آپ مجھے کیس کی تفصیل بتائیں، میرے پاس تو کوئی سرکاری اختیار نہیں لیکن مجھ سے جو ہوسکا ضرور کروں گا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی کی رہائشی ہیں، ان کے خاوند کا اپنے خاندان والوں کے ساتھ جائیداد کے سلسلے میں تنازع چل رہا تھا اور کچھ عرصہ قبل ان کے خاوند کو راولپنڈی میں گھر کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔
ان کے خاوند اپنی زندگی میں ہی جائیداد ان کے نام کر گئے تھے لیکن ان کے سسرال والے جن کا تعلق خیبر پختون خواہ سے ہے جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے ہی ان کے خاوند کو قتل کرایا ہے اور اب انہیں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

سمیرا صفدر نے بتایا کہ ان کے خلاف پشاور میں پولیس کی ملی بھگت سے جھوٹے مقدمات بھی درج کرائے جا رہے ہیں، انھیں شک ہے کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اگر وہ مقدمے کی پیروی کے لیے پشاور جائیں تو انہیں وہاں قتل کر دیا جائے۔

میں نے ان سے کہا ایسا کیسے ممکن ہے، خیبرپختون خواہ پولیس کی تو موجودہ حکومت مثالیں دیتے نہیں تھکتی، وہاں کی پولیس کیسے ملزمان کی مدد کر سکتی ہے؟

میں نے ان سے کہا کہ آپ فورا” مقامی تھانے میں اپنے خدشات کے حوالے سے درخواست دیں اور اپنے لیے سکیورٹی مانگیں ، سمیرا نے بتایا کہ وہ آئی جی تک درخواستیں دے چکی ہیں ، حتی کہ وزیراعظم کی جانب سے عوامی شکایات کے لیے بنائے گئے آن لائن پورٹل پر بھی اپنی شکایت درج کرا چکی ہیں لیکن کوئی مدد نہیں کر رہا۔
مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا لحاظہ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان درخواستوں کی کاپیاں بھجیں۔ کچھ ہی دیر میں سمیرا نے درجن بھر درخواستیں مجھے واٹس آپ کر دیں۔

سمیرا نے بتایا کہ پنجاب پولیس روایتی سست روی کا شکار ہے، جب انھوں نے ایس ایچ او سول لائنز راولپنڈی کو اپنی سیکیورٹی کے سے خدشات سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا “ لوگ تو ایک موبائل فون کے لیے قتل کر دیتے ہیں، یہاں تو جائیداد کا معاملہ ہے۔ “

اس کے باوجود ان کو سکیورٹی فراہم نہ کی گئی۔ میں نے اس حوالے سے پنجاب حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت سے رابطہ کیا تو انہوں نے یقین دلایا کہ متاثرہ خاتون سے کہیں کہ مجھ سے رابطہ کرے میں ہر ممکن مدد کی کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

میں ملک سے باہر تھا اور ہر روز متاثرہ خاتون کے پیغامات موصول ہو رہے تھے، میں نے ایک دوست سے، جو میرے سینئر بھی ہیں اور جن سے میں اکثر رہنمائی حاصل کرتا رہتا ہوں ، اس کیس کے حوالے سے رابطہ کیا اور ان سے مشورہ مانگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خاتون سے کہو جائیداد بیچے اور فوراً ملک سے چلی جائے، نہیں تو ماری جائے گی۔ یہاں کسی کو انصاف نہیں ملتا۔

میں نے کہا ایسا کیسے ہوسکتا ہے، تمام سینئر افسران اس کیس سے آگاہ ہیں، وزیراعظم کے پورٹل پر شکایت درج ہے، کیسے اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔ تو میرے سینئر دوست نے جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے اور میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے واقعات دیکھتا آ رہا ہوں، تم کیا سمجھتے ہو تبدیلی آ گئی ہے؟ عوام کے لیے کچھ نہیں بدلا سب باتیں ہیں، جو میں نے تمہیں کہا ہے وہی ہو گا۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ تو نیا پاکستان ہے، چیزیں بدل چکی ہیں، شاید ہمارے سینئر ابھی بھی پرانے پاکستان میں اٹکے ہوئے ہیں۔

پھر اچانک ایک دن مجھے کال موصول ہوئی، ’’میں نازو شنواری بول رہی ہوں ، انھوں نے میری امی کو مار دیا ہے، میری امی سمیرا صفدر کو مار دیا ہے۔‘‘

جی یہ وہی نازو شنواری ہیں جن کے والدین کے قتل کے حوالے سے آج کل میڈیا میں خبریں بھی آ رہی ہیں۔

نازو نے بتایا کہ ان کی والدہ پر پشاور میں ان والد کے خاندان والوں نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا اور مقدمے میں ضمانت کرانے کے لیے وہ پشاور گئی تھیں جہاں واپسی پر 17 اگست کو انہیں قتل کر دیا گیا۔ اپنے قتل سے چند روز قبل بھی سمیرا نے مجھ سے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں پشاور میں مار دیا جائے گا۔

نازو نے بتایا کہ اب ان کو اور ان کے بھائی کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور وہ اپنی حفاظت کے لیے روپوش ہیں۔ 5 ستمبر کو میری نازو سے بات ہوئی ہے تو اس نے بتایا کہ ہر مرحلے پر انھیں یہ نظام تنگ کر رہا ہے۔ ابھی تک پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے ان کی والدہ کی موت کا سرٹیفیکیٹ نہیں جاری ہو سکا۔

تین ہفتے ہوگئے ہیں ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لیے مقتولہ کے بچے دھکے کھا رہے ہیں۔

نازو نے بتایا جب سے خبر میڈیا پر آئی ہے کی پی کے اعلیٰ پولیس افسران نے ان سے رابطہ کیا ہے اور مدد کی یقین دہانی بھی کرائی جا رہی ہے لیکن نچلی سطح پر پولیس اور دیگر محکموں کے اہلکاروں کا رویہ انتہائی غیرمناسب ہے۔

اگرچہ خان صاحب بار بار اصرار کرتے ہیں کہ پنجاب میں ان کا وسیم اختر بہترین کام کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میڈیا میں کوریج کے باوجود پنجاب حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے ابھی تک نازو سے رابطہ نہیں کیا۔
پنجاب حکومت اور پولیس کی بد بودار کارکردگی تو ذہنی معذور شخص صلاح الدین کو تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد اب مکمل طور پر عیاں ہے۔ لیکن کے پی میں بھی کمزور شخصیت کو وزیراعلیٰ لگا کر خان صاحب نے وہاں بھی نہ صرف اصلاحات کے عمل کو سست کر دیا ہے بلکہ اس پولیس کی کارکردگی بھی دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے، جس کی مثالیں خان صاحب دے کر فخر محسوس کرتے تھے۔

نازو شنواری تو اس نسل میں شامل ہے، جس نے اس ملک کے گلے سڑے نظام کو بدلنے کے لیے تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہا تھا، جو یہ سمجھتی تھی کہ پاکستان کا بوسیدہ نظام ضرور بدلے گا۔ شاید اسلیے وہ بار بار کہتی ہے کہ ہم نے تو وزیراعظم کے آن لائن پورٹل پر بھی شکایت درج کرائی تھی لیکن سمجھ نہیں آ رہی کہ کیوں کسی نے ابھی تک ایکشن نہیں لیا۔

خان صاحب تحریک انصاف کی حکومت کیا ملک کی اس بیٹی کو انصاف مل سکے گا؟ یا ہمارے سینئر جو کہتے ہیں وہی سچ ہے۔

ٹاپ اسٹوریز