ہیجان میں مبتلا لوگ

میں تینوں اندر کردینا اے۔
بکواس بند کر
منہ بند رکھ
گلاں کر دی ایں

پولیس والے نے یہ دھمکیاں بار بار دیں لیکن اماں جی پر رتی برابر اثر نہ ہوا۔ وہ اسکی دھمکیوں، بدتمیزی اور ڈانٹ ڈپٹ کا بھر پور جواب دے رہی تھیں۔ باقاعدہ للکار رہی تھیں ۔ اسے بار بار کہہ رہی تھیں کہ تو کون ایہہ۔ یعنی تم ہو کون مجھ سے سوال کرنے والے۔ اے ایس آئی آصف نے ان کی لاٹھی بھی اٹھا کر پھینک دی لیکن اماں جی شیرنی کی مانند تن کر بیٹھی رہیں۔

میں سوچ رہی تھی کہ ایک ستر سالہ نہایت کمزور بڑھیا کے سینے میں کیسا دلیر دل دھڑکتا ہے جس پر ہٹے کٹے اے ایس آئی کی ڈانٹ ڈپٹ کوئی اثر ہی نہیں کر رہی۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ ماؤں کے سینے میں ہمیشہ دلیر دل دھڑکتے ہیں۔ خواہ وہ گورکی کی ماں ہو یا لاہور کی یہ سن رسیدہ خاتون۔ گورکی کے شہرہ آفاق ناول ماں کا مرکزی کردار اسکی بوڑھی ماں ہے جو روس میں سوشلسٹ انقلاب کے دوران انتہائی پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے اور فیکٹری مزدوروں کی بغاوت کی تحریک میں ان کا ساتھ دیتی ہے۔

ابھی اس بزرگ خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی تھی کہ ایک اور اندوہناک خبر سامنے آئی کہ دسویں جماعت کے طالب علم حنین کو اسکے استاد نے تشدد کر کے جاں بحق کر دیا۔ ایک استاد سبق یاد نہ کرنے پر اپنے شاگرد کا سر دیوار پر مارے اور اس پر اتنا تشدد کرے کہ وہ ہلاک ہو جائے ۔۔۔ کیا یہ خبر اس قوم کے ذہنی خلجان کا پتہ نہیں دے رہی؟

کچھ عرصہ قبل ایک ٹیچر کو ہیڈ مسٹریس نے ذہنی اذیت دے دے کر مار دیا تھا۔ اس کیس کا کیا بنا؟ والدین کو پیسے دے کر چپ کرا دیا گیا۔ پندرہ سالہ ملازمہ عظمیٰ کو مارنے والے بھی سزا سے بچ گئے۔ ہم کس فرسٹریشن میں مبتلا ہیں کہ پندرہ سالہ ریحان کو جان سے مار دیا؟ کس دباؤ کا شکار ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کو تھانے میں اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا؟ کیا یہ اخلاقی زوال ہے یا ڈپریشن؟ کیا ہمیں ایک نفسیاتی معالج کی ضرورت ہے؟

منٹو نے کہا تھا:

’’یہ زمانہ نا قابل بر داشت ہے۔ میں سوسائیٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ چولی پہنانا میرا کام نہیں۔ ‘‘

کل سے بوڑھی خاتون کی ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہے، وہ آئی جی پنجاب کے پاس درخواست لے کر گئی تھیں کہ ان کے مکان پر رائیونڈ کے ایس ایچ او نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، ان کا مکان قبضے سے چھڑایا جائے۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، ایسے ان گنت واقعات آئے روز ہمارے ملک کے گلی کوچوں، سڑکوں چوراہوں، تھانوں اور عقوبت خانوں میں پروان چڑھتے ہیں.

پنجاب پولیس کا جارحانہ رویہ کوئی آج کی بات نہیں اور صرف پنجاب پولیس تک ہی یہ بات منحصر نہیں۔ سندھ کے وڈیرے اس سلسلے میں خاصے بد نام ہیں ۔ وہ تو مزارعوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتے ہیں۔ سندھ کی ام رباب نے دلیری کی داستان رقم کر دی ہے جو ایسے ہی نظام کے سامنے کھڑی ہوئی ہے۔ بہادری کا استعارہ یہ لڑکی ضلع دادو میں اپنے والد، چچا اور دادا کے قتل کےخلاف آواز بنی اور سندھ کی حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو اور برہان خان چانڈیو سمیت سات افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ تہرے قتل کی اس واردات کے بعد جواں سال ام رباب نے اس تہرے قتل کے خلاف تن تنہا علم بلند کیا۔ اس کے کیس کی کارروائی مغربی میڈیا بھی تسلسل کے ساتھ چھاپتا رہا، شائد یہی وجہ ہے کہ ام رباب ابھی تک زندہ ہے۔ ورنہ ستی اور پیدا ہوتے ہی مار دینے والوں کے لئے ایک لڑکی کا ٹھکانے لگانے کیا مشکل تھا۔ ام رباب اس مقدمے کے دوران ننگے پاوں عدالت پیش ہوتی رہی۔ اس کی جنگ چند افراد کے خلاف نہیں وڈیرہ ازم اور جاگیرداری نظام کے خلاف ہے جہاں طاقت کے آگے انصاف بے بس دکھائی دیتا ہے ۔

اوپر بیان کئے گئے بوڑھی اماں کے واقعے کے مجرم اے ایس آئی کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا گو نہ اسکی پیٹی اتروائی گئی نہ وردی۔ ہر منٹ کوئی بچہ، بوڑھا، جوان، ماں یا بیٹی اس نظام کا شکار ہوتے ہیں جہاں غریب کی شنوائی کا کوئی در وا نہیں ہوتا۔ جہاں صاحب حیثیت کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا لیکن پسے ہوئے طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ذہنی خلجان کے شکار لوگ اپنا غصہ مظلوم پر اتارتے ہیں۔

ہم مانتے ہیں کہ یہ کلچر آج کا نہیں بلکہ کئی سال اسکی پرورش ہوئی۔ ذاتی پولیس مقابلے کرائے گئے۔ اپنے مخالفین کو پویس مقابلوں میں مروایا جاتا رہا ۔ لیکن اب ایک سال کے بعد ہم یہ سوال تو کر سکتے ہیں کہ پولیس اصلاحات کے خواب کا کیا ہوا؟ کہاں تک پہنچا؟ آپ اصلاحات کا آغاز تو کیجئے، پولیس اسٹیٹ سے فلاحی ریاست بنانے کی جانب قدم تو اٹھائیے۔ وگرنہ یاد رکھیں کہ اس قوم کو ذہنی معالج کی اشد ضرورت ہے۔

ٹاپ اسٹوریز