چاند كے پار چلو۔۔۔

چاند کے پار چلو

حضور والا، مجھے پاكستان سے محبت ہے۔ بھارت جب بھی پاكستان كے خلاف كچھ كرتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے اور میں چاہتا ہوں كہ بھارت كو ان حركتوں كا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں كہ كشمیر میں بھارت جس طرح سے كشمیریوں پر ظلم كر رہا ہے وہ كسی طور جائز نہیں۔

ہاں مگر میں كبھی كبھی بھارتی گانے بھی سن لیتا ہوں۔ فلم پاكیزہ كا گیت ‘چلو دلدار چلو’ تو آپ نے بھی سنا ہوگا۔ لتا منگیشكر اور محمد رفیع نے جس طرح اپنی محبت میں چاند كو شامل كیا، وہ انداز آج بھی ہمارے كانوں میں رس گھولتا ہے۔ ویسے بھی عاشقوں كے لیے، شاعروں كے لیے، عید كا چاند دیكھنے والی رویت ہلال كمیٹی كے لیے۔۔۔۔غرض کون ہے جس كے لیے چاند اہمیت نہ رکھتا ہو۔ زمین کی حدود میں مقید انسان روز اول سے ہی چاند كی خوبصورتی و روشنی كو تکتا اور سراہتا رہا، یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آ گیا جب اس نے چاند پر قدم ركھنے كی ٹھان لی۔

چاند پر قدم ركھنے كے ایسے ہی عزائم سے بھرا ایک تھا چندرایان 2۔ بھارت كی طرف سے چاند كی طرف بھیجا جانے والا چندریان 2 جولائی 2019 میں زمین سے اڑا اور کئی ہفتوں كی مسافت كے بعد 20 اگست كو كامیابی سے چاند کے مدار میں داخل ہو گیا۔ 2 ستمبر كو وکرم نام کا لینڈر اس خلائی جہاز سے الگ ہوا اور دھیرے دھیرے چاند كی طرف بڑھنے لگا۔ مگر منزل کو چھونے سے صرف سوا میل كے فاصلہ پر اس نے زمین سے اپنا رابطہ كھو دیا اور یوں بھارت كا یہ مشن ناكام ہو گیا۔

اس ناكامی پر بھارتیوں كو اور دنیا كے بہت سے سائنسدانوں كو تو افسوس ہوا مگر ہم میں سے بہت سے پاكستانی یوں خوشی منا رہے ہیں كہ جیسے یہ بھارت كے خلائی مشن كی ناكامی نہ ہو بلكہ پاكستان كے كسی مشن كی كامیابی ہو۔

اور ہاں یہ بات میں واضح كردوں كہ مجھے پاكستان سے محبت ہے۔ بھارت جب بھی پاكستان كے خلاف كچھ كرتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے اور میں چاہتا ہوں كہ بھارت كو ان حركتوں كا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں كہ كشمیر میں بھارت كشمیریوں پر جس قسم کے ظلم كر رہا ہے وہ كسی طور بھی جائز نہیں۔

تو اب بات آگے بڑھاتے ہیں ۔۔۔ عام لوگوں كی سوچ كے بارے میں كیا كہیں، سوشل میڈیا پر بھارت كے اس مشن كی ناكامی كا مذاق اڑانے والوں میں کئی پاكستانی سیاستدان بھی شامل ہیں۔ سائنس اور ٹیكنالوجی كے وزیر فواد چودھری كہتے ہیں كہ مجھے افسوس ہے كہ میں یہ تاریخی لمحہ دیكھ نہیں سكا۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے كہا كہ بھارت نے نالائقی پر نو سو كروڑ خرچ كیے۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لوک سبھا كو مشورہ دیا كہ مودی سے ان نو سو كروڑ كے بارے میں سوال كیا جانا چاہیے۔ اسی روانی میں انہوں نے کہا کہ بھارت كو چاہیے كہ ایسے منصوبوں پر پیسہ لگانے كے بجائے اپنے ملک سے غربت ختم كرنے پر پیسہ لگائے۔

پھر سینیٹر فیصل جاوید نے بھی كچھ ایسے ہی خیالات كا اظہار كیا اور اپنے ٹویٹ میں بھارت كو كہا كہ پہلے بیت الخلا بنائیں پھر چاند کے لیے مشن پر توجہ دیں۔

دونوں رہنماؤں كے ان ٹویٹس كو ہزاروں لوگوں نے پسند كیا اور اپنی سوچ كی عكاسی كی مگر چند ایسے بھی تھے جن كی رائے تھی كہ دشمن كی ناكامی پر اس كا مذاق اڑانے سے بہتر ہے كہ ہم اپنی كامیابیاں بڑھانے پر توجہ دیں۔ میرا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں بھارت كی اس ناكامی پر افسوس نہیں تو خوشی بھی نہیں ہوئی۔

اس كی وجہ بتانے سے پہلے میں ایک بار پھر یہ بات ضرور یاد دلا دوں كہ میں پاكستان سے بہت محبت كرتا ہوں، بھارت جب بھی پاكستان كے خلاف كچھ كرتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے اور میں چاہتا ہوں كہ بھارت كو ان حركتوں كا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ لیكن ان تمام باتوں كا مطلب یہ نہیں ہے كہ بھارت كا خلاءی مشن فیل ہو تو میں بھونڈے انداز میں اس كا مذاق اڑانا شروع كردوں۔

سب سے پہلے تو یہ جان لیں كہ چاند پر اب تک لگ بھگ 135 مشن بھیجے گئے ہیں جن میں سے 67 كو كامیاب یا كچھ حد تک كامیاب شمار كیا جاتا ہے۔ سوویت یونین، امریكہ، چین، جاپان، اسرائیل اور یورپی خلائی ایجنسی كے بعد چاند پر مشن بھیجنے والوں كی فہرست میں بھارت نے بھی اپنا نام شامل كر لیا ہے اور یہ بذات خود ایک بڑی كامیابی ہے۔ بھارت كے اس مشن كی ناكامی پر تالیاں بجانے والے ذرا یہ سوچیں كہ پاكستان كب اس فہرست میں شامل ہوگا؟

اسی طرح ذرا یہ بھی سوچیں كہ اس بات كی كیا گارنٹی ہے كہ بھارت كا اگر یہ مشن ناكام ہو گیا ہے تو آئندہ تمام مشن ناكام ہوں گے؟ كیا بھارت اس ناكامی سے سبق سیكھ كر اگلے مشن كو كامیاب نہیں بنا سكتا؟ اس وقت ہم كیا ٹویٹ كریں گے؟ ذرا یہ بھی سوچیں كہ جب 2014 میں جب پہلی ہی كوشش میں مریخ كا كامیاب مشن مكمل كیا اور ایسا كرنے والا دنیا كا پہلا ملک بن گیا تھا تو سائنس كے میدان میں ہم كہاں تھے اور كیا كر رہے تھے؟

جب ہم بھارت كو پہلے اپنے ملک كی غربت ختم كرنے كا مشورہ دیتے ہیں تو ہم یہ كیوں بھول جاتے ہیں كہ ہمارے ملک میں بھی كروڑوں لوگ خط غربت كے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم نے ان لوگوں كے لیے كیا كیا؟ فواد چوہدری صاحب نے كچھ عرصہ قبل ہی اعلان كیا تھا كہ پاكستان 2022 میں اپنا پہلا شخص خلا میں بھیجے گا اور اس اعلان پر خوب واہ واہ بھی سمیٹی تھی۔ تو اب ان كو بھی چاہیے كہ یہ كام كرنے سے پہلے پاكستان میں غربت پر توجہ دیں، خلا میں پاكستانیوں كو بھیجنے پر خرچ ہونے والے پیسے پاكستانی غریبوں پر خرچ كریں۔ یا پھر ہو سكتا ہے كہ ان كے ذہن میں یہ خیال ہو كہ اس كام كے لیے ہم كسی ملک سے امداد مانگیں گے یا شاید ڈیم فنڈ كی طرح عوام سے چندے كی اپیل كریں گے؟

جب ہم بھارت كو پہلے بیت الخلا بنانے كا مشورہ دیتے ہیں تو ہم اپنے ملک كی، اور خصوصاً كراچی كی گندگی كو كیوں بھول جاتے ہیں؟ كیا فیصل جاوید صاحب یہ بھول گئے ہیں كہ كراچی كو ناقابل رہائش شہروں كی فہرست میں شامل كیا گیا ہے؟ كیا وہ یہ بھول گئے كہ كراچی میں لوگ وہ پانی پیتے ہیں جس میں گٹر كا پانی ملا ہوا ہوتا ہے؟

كیا وہ یہ بھول گئے ہیں كہ انہی كی جماعت كے علی زیدی صاحب نے كراچی كی صفائی مہم شروع كی اور اس كے لیے بھی چندہ مانگا جس كا حساب آج بھی انہوں نے دینا ہے۔ حضور، دوسروں كے بیت الخلا كی طرف دیكھنے سے پہلے اپنے بیت الخلا صاف كریں۔

ایک اور سوال۔ اگر یہ ناكام ہونے والا مشن بھارت كے بجائے ہمارے كسی دوست ملک كا ہوتا تو ہم كیسے اپنے جذبات كا اظہار كرتے۔ اس وقت ہم نہ ان كا مذاق اڑاتے اور نہ انہیں غربت ختم كرنے كا كہتے۔ اس وقت ہم ان كا حوصلہ بڑھاتے اور یہ كہتے كہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں، کوئی بات نہیں، ناكامی بہت كچھ سكھاتی ہے ہے، ہم انہیں اگلی مرتبہ كامیاب ہونے كی دعا بھی دیتے۔ ہاں لیكن یہاں بات بھارت كی ہے تو بس كچھ نہ سوچو، كچھ نہ سمجھو، طنز كردو بس۔

ویسے مجھے بھی ایک ڈر ہے۔ جب یہ مضمون شائع ہو گا اور لوگ اسے پڑھیں گے تو وہ مجھ پر كتنا طنز اور غصہ كریں گے؟ ان لوگوں كے لیے ایک بار پھر واضح كر دیتا ہوں كہ مجھے پاكستان سے بے حد محبت ہے۔ بھارت جب بھی پاكستان كے خلاف كچھ كرتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے اور میں چاہتا ہوں كہ بھارت كو ان حركتوں كا منہ توڑ جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز