بھارت کا خلائی مشن

آوازہ

ناگاہ ایک خبر نظرسے گزری تو ترکی کے شاعر کبیر حضرت محمد عاکف ایرصوئے کی یاد آئی۔ خبر یہ تھی کہ بھارت کا خلائی مشن کامیابی کے قریب ہے اور اس کی چاند گاڑی چاند رایان چاند پر بس اترا ہی چاتی ہے، پھر یہ سوچا کہ دشمن کی چاند گاڑی کے منزل پر پہنچنے یا راستے میں ہی عدیم الخبر ہوجانے کی خبر تو چشمِ زدن میں عام ہوجائے گی لیکن اس دیس میں کتنے ہیں جو شاعر کبیر کو جانتے ہیں؟

اس پر اُن بزرگوں کی یاد آئی جنھوں نے اقبالؒ کا زمانہ دیکھا یا ایسے بزرگوں کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی جنھیں اس دانائے راز کے ہم عصروں سے فیض ملا۔ اُن کے مزاج میں سوز کا گداز اور تڑپ کی گرمی ایسی تھی جس سے بڑے بڑے پتھر دل موم ہو جاتے۔ مکتب ِعشق سے آداب خود آگاہی سیکھنے والے ان فقیروں کی محفل میں بیٹھنے کا شرف تو حاصل نہ ہو سکا لیکن بارہ پندرہ کی عمر تک اپنے والد کے شب و روز اور ان کیفیات کو دیکھنے کا موقع مجھے ضرور ملا ہے۔

یہ عمر ایسی تو نہیں ہوتی کہ مذہبِ عشق کے کیف و کم کو سمجھا جا سکے لیکن سوزِ دروں سے پھوٹنے والی آنچ کو تھوڑا بہت محسوس تو کیا جا سکتا ہے۔ سردیو ں کی طویل راتوں کے دوران لحافوں میں گھس کر یا تاروں بھری رات میں کھلے صحن میں محسوس ہونے والے ہوا کے ٹھنڈے گرم جھونکوں کے دوران سنی ہوئی ان کی باتوں کی خوشبو آج بھی تازہ ہے۔ وہ ہمیں تحریک آزادی، قائدؒ و اقبالؒ نیز امت مسلمہ کی تاریخ و مزاج سے آگاہ کیا کرتے۔ مجھے اُن گفتگوؤں کی تفصیلات تو یاد نہیں لیکن اُس ماحول کی تمام ترکیفیات اپنی جزیات کے ساتھ میری یادوں میں محفوظ ہیں۔

اقبالؒ کے اشعار وہ جس جذبے کے ساتھ پڑھتے اس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ اقبالؒ کا ذکر فرماتے تو ممکن نہ تھا کہ مولانا رومؒ کا تذکرہ رہ جائے۔ اِس تذکرے کے دوران میں ان کے جسم و جان سراپا عقیدت بن جاتے۔ یہ ایسے بزرگوں ہی کا فیضان ہے کہ ہماری فکری، تہذیبی اور روحانی زندگی اقبالؒ اور مولانا رومؒ کے بغیر نامکمل ہے۔ اصل میں ان دو بزرگوں کا فکری اور روحانی تعلق اتنا توانا اور مضبوط ہے کہ اس کی وجہ سے کئی دوسرے مگر اہم کردار پس منظر میں چلے گئے، مثلاً ترکی کے قومی شاعر اور قومی ترانے استقلال مارشی کے خالق محمد عاکف ایرصوئےؒ۔

محمد عاکف ایرصوئے ؒ اقبال ؒ کے ہم عصر ہیں اور فکری و علمی معاملات کے علاوہ شخصی اعتبار سے بھی اقبال کے ساتھ غیر معمولی مشابہت رکھتے ہیں۔ مثلاً اقبالؒ کے فکری شعور کی بنیاد قرآنِ حکیم سے اٹھی ہے، عاکف ؒ مفسر قرآن ہیں۔ اقبالؒ ؒاکھاڑے اور فنِ پہلوانی کے قدردان تھے، عاکفؒاس فن میں طاق تھے۔ اقبالؒ کی شاعری میں غنایت اور ترنم کا راز موسیقی سے رغبت میں پوشیدہ تھا، عاکفؒ کی کیفیت بھی مختلف نہیں۔ اقبالؒ مسلمانوں کے حالِ بد پر پریشاں تھے اور چاہتے تھے کہ راست فکری اور قوت ِعمل پیدا کر کے انھیں اس صورت حال سے نجات دلائی جائے، عاکف کی فکر بھی یہی ہے۔

اقبالؒ اور عاکفؒ یقیناً دو مختلف وجود تھے، وہ الگ خطوں میں پیدا ہوئے، دونوں کی زبان میں بھی فرق تھا لیکن فکر اور جذبے نے انھیں یک جا کر دیا۔ اِن جڑواں شاعروں کا ایک مشترکہ امتیاز حریت ِ فکر، جذبہ آزادی، خود احتسابی اور مسائل کے تجزیے کے ایک جیسے نتائج ہیں۔ اس تعلق سے اگر عاکف کے کلام پر توجہ دی جائے تو یوں لگتا ہے جیسے یہ اشعار کہتے ہوئے ان کے پیش ِ نظر صرف اپنا عہد نہ تھا بلکہ آج کی دنیا بھی تھی۔

ان کی ایک نظم ہے، ”برلن خاطرہ لری“(یعنی برلن کی یادیں)۔ یہ نظم مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والی ایک ماں کے تذکرے سے شروع ہوتی ہے جس کا بیٹا غالباً جنگ عظیم اوّل میں کام آ گیا تھا۔ نظم میں مسلمان خواتین کا بھی ذکر ہے جن کے پیارے ان جنگوں کا ایندھن بنے لیکن ان کے دکھ کو فراموش کر کے تمام تر الزامات انہی کے سر تھوپ دیے گئے۔

وہ اپنی بات اسی موازنے پر ختم نہیں کرتے بلکہ ان جنگوں میں دشمن کی کامیابی کے راز پر بھی بات کرتے ہیں۔ترکی زبان میں لکھی گئی ان نظموں کے اردو اور انگریزی میں تراجم ہوئے ہیں لیکن چوں کہ ان میں عروض اور اوزان کا خیال نہیں رکھا گیا،اس لیے ان (تراجم) میں جوشِ بیاں اور نغمگی تو یقینا متاثر ہوئی ہے لیکن ان کی فکری گہرائی، دور تک دیکھنے کی صلاحیت اور جذبے کی شدت قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس نظم کے لیے تحریک کا سبب بننے والی خاتون اپنے بیٹے کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے جب غیر ملکیوں کو دیکھتی ہے تو جھینپ کر اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتی ہے، اس پر وہ کہتے ہیں:
”اے خاتونِ بے اماں!
شرم نہ کر رونے میں
بہنے دے انھیں، یہ آنسو ہیں مقدس
کہ جان دینے والے نے جان دی کسی مقصد کے لیے،
اپنے وطن کے لیے۔

کیا تو ماں نہیں، مرنے والا ترا بیٹا نہیں؟

بعض قوموں کا چلن یہ رہا ہے کہ ان تمام تر تبا ہکاریوں کا الزام کمزور اقوام یا پھر مسلمانوں پر عاید کردیا جائے۔ نظم کے اگلے حصے میں وہ اس پہلو کا ذکر نہایت فن کارانہ انداز میں کرتے ہیں:

ہے اگر رفیق ِازل کوئی مصائب کا
تو وہ ہم ہیں، فقط ہم
دن کوئی گزرتا نہیں بد بختی کے سوا
رہتے ہیں ہم گرفتار بلا
ہوا دلِ مسلم مسّرت سے بے گانہ
مگر
یہ ہم ہیں، فقط ہم
پہچانتے ہیں جو ہر دل ِپرسوز کے نالہ وفریاد کو

مسلمانوں کے حالات کے اس اجمالی تذکرے کے بعد وہ مشرقی خواتین کے دکھوں کی ترجمانی کرتے ہیں:

وہ جو خاتونِ مشرق ہے
ہے خود ایک حساس ماں
مگر کیا خبر تمھیں، کیا جانو تم
کہ بتایا گیا تمھیں جانے کیا
کیا وہ آنسو جو گرتا ہے، اس کی آنکھ سے
کیا درد بھرا نہیں ہوتا؟
کیا مشترک نہیں ہوتی آنکھ سے بہنے والے اشک کی زباں؟

اس کے بعد نظم کا سب سے اہم اور غیر معمولی حصہ شروع ہوتا ہے جس میں وہ دشمن کی ترقی اور اپنی تنزلی کا راز بے نقاب کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جنگ عظیم کے بعد اہل مغرب کسی دیو کی طرح کام میں جت گئے اور انھوں نے دہائیوں تک زندگی کے مختلف شعبوں، خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ دی اور اپنے قومی اتحاد کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنے مذہب کو مقدم رکھا اور اسی سے توانائی حاصل کر کے اپنے مقاصد کی طرف پیش رفت کی۔

یہاں اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب اور مذہب؟ تو عرض ہے کہ محمد عاکف ایرصوئےؒ بھی اقبال ؒ کی طرح مغرب کی روح اور اس کی نفسیات کی باریکیوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ حقیقت کسی شک و شبہے سے بالا ہے کہ بعض بالادست عالمی قوتوں نے اپنے نام نہاد مذہبی عقائد کی خاطر ہی دنیا میں تباہی مچائی۔ماضی کی صلیبی جنگیں ہوں یا زمانہ حال میں دہشت گردی کے عنوان سے چھیڑی جانے والی لڑائیاں، ان سب کا جواز مذہب ہی سے کشید کیا گیا۔

اس ضمن میں سابق امریکی صدر بش (جونیئر) کا وہ بیان حاصل بحث ہے جس میں انھوں نے دہشت گردی کے عنوان سے چھیڑی ہوئی اپنی جنگ کو صلیبی جنگوں سے منسلک کیا تھا۔ زمانہ حال میں یہی روّیہ بھارت نے اختیار کیا ہے جس کے نتیجے میں ہندوتوا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ بھارتی لیڈر نریندر مودی کی مذہبی جنونیت ہی ہے جس کا شکار صرف اہل کشمیر ہی نہیں ہو رہے بلکہ دنیا کی بقا ہی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

محمد عاکف ؒ دین بیزاری،علم و حکمت، خاص طور پر سائنسی علوم سے مسلمانوں کی بے رغبتی اور باہمی انتشار پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ دشمن نے جس راستے کا انتخاب اپنے باطل مقاصد کے لیے کیا ہے، تم نے حق پر ہوتے ہوئے بھی اس سے پیٹھ پھیری اور رسوا ہوئے۔

تو کہنا یہ ہے کہ بھارتی خلائی مشن چاند رایان کی کامیابی اور ناکامی معنی نہیں رکھتی، اصل بات اس راستے کا انتخاب ہے جو قوموں کی قسمت بدلنے کی قدرت رکھا ہے،آج جب ہم ایک اور تاریخی آزمائش کے دہانے پر جا کھڑے ہوئے ہیں، اقبالؒ اور محمد عاکف ایرصوئےؒ جیسے اہل بصیرت کی طرف پلٹنے اور ان کے افکار میں پناہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔

ٹاپ اسٹوریز